5 جمادی اول کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت ہوئی ۔ پیغمبرﷺ نے خدا کے حکم سے اس نومولود کا نام زینب رکھا۔
آپ کی ولادت کے بعد آپ کے نانا رسول خداﷺ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو حکم دیا کہ نومولود کو میرے پاس لاؤ ۔نبی اکرمﷺ نے آپ کو سینے سے لگایا اور بلند آواز سے گریہ فرمایا اس طرح کہ آپ کے رخسار پر آنسو رواں ہوگئے۔حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے عرض کہ بابا جان خدا آپ کو کبھی نہ رلائے یہ گریہ کس لیے؟آپؐ نے فرمایا کہ بیٹی ! یہ اندوہناک مصائب اور تکالیف کو برداشت کرے گی پس اسکی مصیبت پر جو بھی روئے گا اسے اسکے دوبھائیوں پر گریہ کا ثواب ملے گا۔
زینب کا معنی
زینب کا معنی باپ کی زینت ہےحضرت زینب سلام اللہ علیہا امام علی علیہ السلام کی فصاحت،علم،شجاعت اور مناظرہ کی قدرت کی وارث تھیں۔انکی یہ خصوصیات کربلا کے واقعہ میں ظاہر ہوئیں۔جیسا کہ لہوف میں کہ راوی کہتا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے جب ابن زیاد لع کے دربار میں خطبہ دیا تو ہم سمجھ رہے کہ علی خطبہ دے رہے ہیں۔
زینب کا دوسرا معنی
اہل لغت نے زینب کا دوسرا معنی یہ بیان کیا ہے کہ زینب یعنی تنومند تنہادرخت جو بیابان میں بھی تنہا اوراکیلا ہو۔
بچپن میں توحیدی کمالات
نقل کیا گیا ہےکہ ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام نے بچپن میں حضرت زینب ع سے کہا کہ کہو ایک آپ نے جواب دیا کہ ایک امام نےکہا کہو دو! آپ نے جواب دیا کہ میں شرم آتی ہے کہ جس زبان سے ایک کہا ہے اس سے دو کہوں!
دل فقط خدا کیلئے
ایک مرتبہ شہزادی ع اپنے والد امام علی ع سے باتیں کررہی تھی کہ کہنے لگیں کہ بابا کیا آپ ہم سے محبت کرتے ہیں؟آپ نے جواب دیا کیوں نہیں تم میرے جگر کے ٹکڑے ہو تو شہزادی مسکرائیں اور عرض کیا کہ بابا دو طرح کی محبت مومن کے دل میں اکٹحی نہیں ہوسکتی۔خدا اور اولاد کی محبت!اب اگر بیان کرنا ضروری ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے لیے مہرو شفقت اور خدا کے لیے خالص محبت!
نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں
آپ نے اپنے نانا رسول خداﷺ سے بھی تربیت لی اور علم و محبت اور عقلانیت کی تعلیم لی۔رسول خدا ﷺ کی محبت صرف حضرات حسنین علیہما السلام کے لیے نہیں تھی بلکہ حضرت فاطمہ ع کی دونوں بیٹیوں سے بھی برابر محبت فرماتے تھے۔
ولایت کی پیروی
امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفہ والوں نے امام حسن علیہ السلام سے منہ موڑ لیا اور آپ خیانت کی وجہ سے معاویہ کے ساتھ صلح پر مجبور ہوئے اور جب آپ واپس مدینہ لوٹے تو حضرت زینب ع بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔شہزادی ع اپنے بھائی کی ہمراہی میں صبر و استقامت کی حامل اور دینی اقدار اور سنت رسول ؐ کی دفاع کرنے والی بنیں۔شہزادی ع کی امام حسن علیہ السلام سے محبت کی بڑی دو وجہ تھیں ایک یہ کہ والد کی شہادت کے بعد شہزادی ع اما حسن علیہ السلام کے زیر سایہ تھیں اور دوسرا آپ وقت کے امام تھے جس کی اتباع شہزادی ع پر واجب تھی۔
قافلہ حسینی کی سالار
خدا کی ذات سے محبت اور عشق نے شہزادی ع کو ایثار اور فداکاری کا عروج عطا کیا۔امام حسین علیہ السلام کی محبت سے دل لبریز ہوگیا۔ایسی محبت جس کی مثال تاریخ میں عدیم النظیر ہے۔
روز عاشورا
شہزادی عنے ایک ایک شہید کی شہادت کا دکھ برداشت کیا اور جب آپ کے اپنے بچوں حضرت عون و محمد علیہما السلام کی قربانی کی باری آئی تو جب آپ کو خبر ملی تو اپنے مادری عواطف کو امام حسین علیہ السلام کے سامنے کا اظہار نہ کیا تاکہ امام علیہ السلام کے رنج وغم میں اضافہ نہ ہو۔
بے وفاؤں کے شہر میں
شہزادی ع کوفہ اور کوفہ والوں کو اچھی طرح سے جانتی تھیں جو عورتیں کوفہ میں امام علی علیہ السلام کی نظر میں شہزادی ع کا مقام و مرتبہ دیکھ چکی تھیں آج وہی اسی مظلومہ بی بی ع کو بے ردا دیکھنے بازار میں جمع تھیں۔
خطبہ کوفہ
بشیر بن خزیم اسید کہتے ہیں کہ بنت علی ع کو اس روز میں نے دیکھا اور میں ان سے زیادہ باحیا اور سخنور نہیں دیکھا جیسے زبان علی ع سے گویا ہورہی ہو۔آپ نے اہل کوفہ کو دیکھا جو شور و غوغا مچا رہے تھے فرمایا کہ خاموش ہوجاؤ! اچانک اس طرح خاموش ہوئے کہ جیسے سینوں میں سانس رک گیا ہو اور اونٹوں کے گلے میں بندھے گھنگھرؤں نے بھی بجنا چھوڑ دیا۔
دربار یزید لعین میں خطبه
یزید نے اپنی محفل میں حکومت اور فوجی افسروں کو جمع کررکھا تھا اور مسلسل اسلام اور اہل بیت علیہم السلام کی نسبت توہین کررہا تھا۔اور دینی اقدار و احکام کا تمسخر اڑا رہا تھا۔دیکھنے والے خوشحال تھے اس موقعہ کو شہزادی ع نے غنیمت جانا اورپانی جگہ سے کھڑی ہوئیں اور یزید ملعون کے سامنے خطبہ بیان فرمایا اور اسکے آباؤ اجداد اور اسکے مکروفریب کوکھلے عام بیان کردیا۔
حضرت زینب علیہا السلام کی برجستہ خصوصیات
آپ کی برجستہ خصوصیات کو احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔آپ عظیم شخصیت کی مالک تھیں۔تاریخ ایک حد تک آپ کی شخصیت کے متعلق بیان کرتی ہے۔آپ کی شخصیت کی عظمت کا اندازہ امام سجاد علیہ السلام کے بیان سے لگایا جاسکتا ہےکہ آپ ایسی عالمہ ہیں جس ے کسی معلم کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیے۔
ماخذ :حوزہ