امام حسن مجتبیؑ امام علیؑ کے چار سالہ دور خلافت میں شروع سے لے کر آخر تک اپنے والد گرامی کے ساتھ رہے۔ کتاب الاختصاص کے مطابق حسن بن علیؑ نے لوگوں کی طرف سے امام علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کرنے کے بعد اپنے والد کے حکم سے منبر پر جا کر لوگوں سے خطاب فرمایا۔ وقعۃ صفین نامی کتاب کے مطابق امام علیؑ کے کوفہ آنے کے پہلے دن سے ہی حسن بن علی بھی اپنے والد کے ساتھ کوفہ میں قیام پذیر ہوئے۔
جنگ جمل
ناکثین کی عہد شکنی اور شورش کے بعد امام علیؑ لشکر لے کر ان کا مقابلہ کرنے کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں امام حسنؑ نے امام علیؑ کو اس جنگ سے دور رہنے کی درخواست کی۔
شیخ مفید (متوفی 413 ھ) کے مطابق امام حسنؑ اپنے والد کی طرف سے عمار بن یاسر اور قیس بن سعد کے ساتھ کوفہ جا کر لوگوں کو امام علیؑ کے لشکر میں شامل ہونے کیلئے آمادہ کرنے پر مأمور ہوئے۔ آپ نے کوفہ میں لوگوں سے خطاب کیا اور امام علیؑ کے فضائل اور آپ کے مقام و منزلت نیز ناکثین (طلحہ و زبیر) کی عہد شکنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کو امام علیؑ کی مدد کرنے کی درخواست کی۔
جنگ جمل میں جب عبداللہ بن زبیر نے امام علیؑ پر عثمان کے قتل کی تہمت لگائی تو امام حسنؑ نے ایک خطبہ دیا جس میں عثمان کے قتل میں طلحہ اور زبیر کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا۔ امام حسن مجتبیؑ اس جنگ میں لشکر اسلام کے دائیں بازو کی سپہ سالاری کر رہے تھے۔ابن شہر آشوب سے منقول ہے کہ امام علیؑ نے اس جنگ میں اپنا نیزہ محمد حنفیہ کو دیا اور عائشہ کی اونٹنی کو مار دینے کا حکم دیا لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے اس کے بعد امام حسنؑ نے اس کام کی ذمہ داری سنبھالی اور عایشہ کی اونٹنی کو زخمی کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بعض منابع میں آیا ہے کہ جنگ جمل کے بعد امام علیؑ بیمار ہوئے اس موقع پر آپ نے بصرہ میں نماز جمعہ پڑھانے کی ذمہ داری امام حسنؑ کے سپرد کی۔ آپ نے نماز جمعہ کے خطبے میں اہل بیتؑ کے مقام و منزلت اور ان کے حق میں کوتاہی کرنے کے انجام کی طرف اشارہ فرمایا۔
جنگ صفین
نصر بن مزاحم (متوفی 212 ھ) کے بقول امام حسنؑ نے صفین کی طرف لشکر کے روانہ ہونے سے قبل ایک خطبہ دیا جس میں لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی۔ بعض احادیث کے مطابق جنگ صفین میں آپ اپنے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ لشکر کے دائیں بازو کی سپہ سالاری کر رہے تھے.
اسکافی (متوفی 240 ھ) نقل کرتے ہیں کہ جب حسنؑ بن علیؑ کا جنگ کے دوران لشکر شام کے کسی بزرگ سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے امام حسنؑ کے ساتھ لڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا میں نے رسول خداؐ کو اونٹ پر سوار ہو کر میری طرف آتے دیکھا اور آپ ان کے آگے اسی اونٹ پر سوار تھے۔ میں نہیں چاہتا رسول خداؐ سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ آپ کا خون میرے گردن پر ہو۔
کتاب وقعۃ صفین میں آیا ہے کہ عبیداللہ بن عمر (فرزند خلیفہ دوم) نے حسن بن علیؑ سے ملاقات میں آپ کو اپنے والد کی جگہ خلافت قبول کرنے کی پیشکش کی کیونکہ قریش علیؑ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ امام حسنؑ نے جواب میں فرمایا: خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اس کی بعد فرمایا: گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم آج یا کل مارے جاؤگے اور شیطان نے تمہیں دھوکا دیا ہوا ہے۔ مذکورہ کتاب کے مطابق عبیداللہ بن عمر اسی جنگ میں مارا گیا. جنگ کے خاتمے اور حکمیت کے واقعے پر بعد امام حسنؑ نے اپنے والد ماجد کے حکم سے لوگوں سے خطاب فرمایا۔
صفین سے واپسی پر راستے میں امام علیؑ نے اخلاقی تربیتی موضوع پر مشتمل ایک خط اپنے فرزند امام حسنؑ کے نام لکھا، جو نہج البلاغہ میں مکتوب نمبر 31 کے عنوان سے آیا ہے۔
کتاب “الاستیعاب” میں آیا ہے کہ حسن بن علیؑ نے جنگ نہروان میں بھی شرکت کی۔
اس دور سے متعلق دیگر واقعات میں سے ایک امام علیؑ کی وصیت کے تحت آپ کی جانب سے انجام پانے والے خیریہ امور جیسے وقف اور صدقات وغیرہ کی نگرانی آپؑ بعد امام حسنؑ کے سپرد کیا جانا ہے۔ کافی کے مطابق یہ وصیت 10 جمادی الاول سنہ 37ھ کو لکھی گئی۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ امام علیؑ اپنی زندگی کے آخری ایام میں معاویہ کے ساتھ مقابلہ کیلئے دوبارہ تیاری کر رہے تھے جس میں آپ نے اپنے بیٹے امام حسنؑ کو اپنی فوج کے دس ہزار نفری کا سپہ سالار مقرر فرمایا.
ماخذ:ویکی شیعه