جنگ خندق

غزوہ خندق یا غزوہ احزاب جسے عربی میں غزوة الخندق کہتے ہیں۔یہ غزوہ سنہ 5 ہجری میں قببیلۂ بنی نضیر کی سازش کے نتیجے میں شروع ہوا اور قبیلۂ قریش اسلام کی بیخ کنی کے لئے کفار اور عرب کے تمام حلیف قبائل کے ساتھ متحد ہوا۔ اس جنگ میں مشرکین اور یہود کی سپاہ 10000 افراد پر مشتمل تھی جبکہ مسلمین کی سپاہ میں 3000 افراد شامل تھے۔ مدینہ میں سکونت پذیر بنو قریظہ نے عہد کیا تھا کہ وہ جنگ کی صورت میں رسول اللہؐ کا ساتھ دیں گے نہ ہی آپؐ کے دشمنوں کی مدد کریں گے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنا عہد پامال کرتے ہوئے مشرکین کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ مشرکین کا مقابلہ کرنے کی غرض سے حضرت سلمان فارسی رض کی تجویز پر مسلمانوں نے شہر مدینہ کے اطراف میں ایک خندق کھودی۔ یہ جنگ مسلمانوں کی فتح پر اختتام پذیر ہوئی اور دشمنوں کو پسپا ہونا پڑا۔

عمرو بن عبد ود ایک بہادر شخص تھا اور اس کی شجاعت زبانزد عام و خاص تھی۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ خندق پھلانگ کر مسلمانوں کی جانب آیا اور جنگ کے لئے مبارز طلب کیا؛ مسلمانوں نے خوف کے مارے خاموشی اختیار کرلی۔ بالآخر حضرت علی بن ابی طالب(ع) رضاکارانہ طور پر ـ اور رسول خداؐ کی اجازت سے ـ میدان میں آئے اور عمرو کو ہلاک کر ڈالا۔مولا علی(ع) کا یہ اقدام ـ جو عمرو کے قتل پر منتج ہوا ـ جنگ میں اسلام کی فتح و نصرت اور کفار کی شکست میں اس قدر مؤثر تھا کہ رسول خداؐ نے فرمایا:

ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندقِ افضلُ من عبادة الثقلين

یعنی غزوہ خندق کے روز علی(ع) کی ایک ضربت ثقلین ( جنات اور انسانوں) کی عبادت سے افضل و برتر ہے۔

جنگ خندق کا دوسرا نام

یہ جنگ غزوہ احزاب کے نام سے بھی مشہور ہے؛ کیونکہ اس جنگ اور اسلام کی بیخ کنی کے لئے مشرکین قریش نے اپنے حلیفوں کے ہمراہ عرب کے دیگر کافر قبائل اور یہودیوں سے اتحاد کرلیا۔

ماخذ: ویکی شیعه

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

ثانی زہراء علیہا السلام،عقل کے کمال کی بہترین مثال

حضرت زینب علیہا السلام کا یہ کلام توحید کے اعلی ترین مراتب اور بندگی اور عبودیت میں قرب خدا  پر دلالت کرتاہے۔معشوق کی نسبت عاشق کے انتہائی ادب  پر دلیل ہے۔