علی بن محمد (212۔254 ھ)، امام علی نقی ؑ کے نام سے مشہور، شیعوں کے دسویں امام ہیں۔ آپ کے والد ماجد نویں امام امام محمد تقیؑ ہیں۔ آپؑ سنہ 220 سے 254 ہجری یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے۔ دوران امامت آپ کی زندگی کے اکثر ایام سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے ہیں۔ آپؑ متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں اہم ترین متوکل عباسی تھا۔
عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق کے متعدد موضوعات پر آپؑ سے کئی احادیث منقول ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہیں من جملہ ان موضوعات میں تشبیہ و تنبیہ اور جبر و اختیار وغیرہ شامل ہیں۔ زیارت جامعۂ کبیرہ جو حقیقت میں امامت سے متعلق شیعہ عقائد کے عمدہ مسائل اور امام شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے، آپؑ ہی کی یادگار ہے۔
امامت کے دوران مختلف علاقوں میں وکلاء تعیین کر کے اپنے پیروکاوں سے رابطے میں رہے اور انہی وکلاء کے ذریعے شیعوں کے مسائل کو بھی حل و فصل کیا کرتے تھے۔ آپؑ کے شاگردوں میں عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید، ایوب بن نوح، حسن بن راشد اور حسن بن علی ناصر شامل ہیں۔
نسب، کنیت و لقب
آپ کے والد امام محمد تقی علیہ السلام، شیعیان اہل بیتؑ کے نویں امام ہیں۔ آپؑ کی والدہ سمانہ یا سوسن نامی ایک کنیز تھیں۔
امام ہادیؑ اور آپؑ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام عسکریین کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ کیونکہ عباسی خلفا انہیں سنہ 233 ہجری میں سامرا لے گئے اور آخر عمر تک وہیں نظر بند رکھا۔
امام ہادیؑ نجیب، مرتضی، ہادی، نقی، عالم، فقیہ، امین اور طیّب جیسے القاب سے بھی مشہور تھے۔
آپؑ کی کنیت ابوالحسن ہے اور چونکہ امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کی کنیت بھی ابوالحسن ہے اسی لئے اشتباہ سے بچنے کے لئے امام کاظمؑ کو ابوالحسن اول، امام رضاؑ کو ابوالحسن ثانی اور امام ہادیؑ کو ابوالحسن ثالث کہا جاتا ہے۔
امامت
امام ہادیؑ سنہ 220 ہجری میں اپنے والد امام جوادؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ ظاہر ہے کہ امام کی کمسنی کا مسئلہ امام جوادؑ کی امامت کے آغاز پر حل ہوچکا تھا چنانچہ اکابرین شیعہ کے لئے امامت کے وقت یہ مسئلہ حل شدہ تھا اور کسی کو کوئی شک و تردد پیش نہ آیا۔ شیخ مفید کے بقول چند معدودافراد کے سوا امام جوادؑ کے پیروکاروں نے امام ہادیؑ کی امامت کو تسلیم کیا۔
ماخذ: ویکی شیعہ