امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں مجالس کی بہت بڑی اہمیت ہے جو سادہ ترین راستہ ہے جس کے ذریعہ حسینی تحریک کے واقعات کو بیان کیا جاتا ہے اور اس عاشورائی ثقافت کو قائم رکھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ظلم کے خلاف قیام کا جذبہ لوگوں میں پیدا کیا جاتا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب علیہا السلام شروع سے ہی عزاداری کی سنت کو برپا کرنے کی فکر میں تھے۔سب سے پہلی مجلس شام میں برپا ہوئی جو کہ یزید کا دارالحکومت تھا۔
جب یزید نے دیکھا کہ اسکا بس نہیں چل رہا تو اس نے فیصلہ کیا کہ پشیمانی اور ندامت کا اظہار کرے تو حضرت زینب علیہا السلام نے یزید سے کہا ہمیں مجلس کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ امام حسین علیہ السلام کے مصائب بیان کرسکیں اور مجلس عزا برپا کریں۔قطعا امام سجاد علیہ السلام کااس تجویز میں بنیادی کردار تھا جن کی اجازت سے یہ مجلس منعقد ہوئی۔
یزید نے اجازت دی اور امام سجاد علیہ السلام اور سادات کے اسیروں نے شام کے دارالحجارہ میں سات دن تک مجلس عزا منعقد کی۔بہت زیادہ خواتین اس میں شرکت کرتیں اور امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کے مصائب لوگوں کو معلوم ہوئے اور اس قدر انہی جوش آگیا کہ قریب تھا کہ لوگ یزید کے محل پر حملہ کردیں اور اسے قتل کردیں۔
مروان جوکہ اس وقت شام میں تھا اس نے خطرے کا احساس کیا اور یزید سے کہا کہ امام سجاد علیہ السلام او باقی اسیروں کا شام میں رہنا خطرے سے خالی نہیں اس لیے انہیں فورا مدینہ بھیج دو۔
یزید نے اسراء اہل بیت علیہم السلام کو آٹھویں دن مدینہ بھیج دیا۔
اس بنا پر مجالس عزا کے سب سے پہلے بانی امام سجاد علیہ السلام تھے۔
ایک دوسری مثال بھی ہے کہ جب کاروان اسراء اہلبیتؑ کو مدینہ بھیجا جارہا تھا تو امام سجادؑ نے وہ راستہ اختیار کروایا جو کربلا سے گزرتا تھا اور وہاں اربعین حسینی کے موقعہ پر امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کی مجالس تین دن تک منعقد کی گئیں۔
صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) بھی وہاں موجود تھے اور تین دن تک بنی ہاشم اور اہل کوفہ اور دیگرلوگ اکٹھے ہوئے اور مجلس عزا میں شرکت کی۔
یہاں سے عزاداری کی سنت کا آغاز ہوا۔بعد میں مدینہ میں جاری رہی اور وہاں سے ایک عظیم سنت کے طور پر پوری دنیا میں پھیل گئی۔
حوالہ:
1۔ اقتباس از نفس المهموم، ص 262.
2۔شفقنا