سر ورق / مقالات / “ما رأيت الا جميلاً” سے کیا مراد ہے؟

“ما رأيت الا جميلاً” سے کیا مراد ہے؟

“ما رأيت الا جميلاً” سے کیا مراد ہے؟

جواب:

جب اسرائے اہل بیتؑ کو کربلا سے کوفہ، ابن زیاد کے دربار میں لے جایا گیا تو ابن زیاد لعین نے چاہا کہ اسیروں کے حوصلے مزید پست کروں تو اس نے خاندان اہلبیتؑ کو دیکھتے ہی کہا کہ خدا کا شکر جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہاری تکذیب کی۔تو وہاں حضرت زینب بنت علی علیہا السلام نے جواب دیا اور مشہور جملہ فرمایا:

“ما رأيت الا جميلاً”

یعنی میں نے خوبصورتی  کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔

آپ نے فرمایا کہ شہدائے کربلا وہ تھے جنہیں خدا نے شہادت کیلئے منتخب کرلیا تھا اور روز قیامت تجھے اور انہیں ایک جگہ اکٹھا محشور کرے گا تاکہ دونوں اپنی اپنی دلیل لائیں  اور اس وقت تمہیں معلوم ہوگا کہ فاتح کون ہے؟!

کچھ لوگ روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے یا کمزور ایمان ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس فانی دنیا میں  زندہ رہنا اور مقام،عہدہ اور مال وثروت وغیرہ ہی کامیابی کی دلیل ہے اسی لیے خد اکے احکام کو بھی کسی خاطر نہیں لاتے۔اسی وجہ سے ابن زیاد بھی خود کو فاتح سمجھ رہا تھا  کیونکہ اس نے امام حسین علیہ السلام اوراصحاب کو شہیدکردیا تھا اور انکے اموال کو تاراج کرلیا تھا لیکن وہ اس چیز سے غافل تھا کہ اصل فتح خدا کے احکام اور دستورات کی پیروی ہے جو اس نے انسانوں کیلئے معین فرما دیئے ہیں۔جس نے بھی ا ن احکام سے سرپیچی کی ہے وہی شکست خوردہ ہے۔جبکہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم نے جو خدا نے فریضہ انکے لیے مقرر فرمایا تھا اس پر بہترین عمل کیا اور سعاد ت  پر فائز ہوئے۔ اور واضح ہے کہ خدا کے احکام اور دستورات پر عمل کرنے سے زیادہ کوئی چیز ان کیلئے شیرین اور گوارا نہ تھی اسی لیے حضرت زینبؑ نے بھی اسے خوبصورت قرار دیا کیونکہ یہی وہ فریضہ تھا جو ان کے کاندھوں پر تھا اور انہوں نے اس پر بہترین انداز میں عمل کیا۔

البتہ دوسری تفسیر بھی کی جاسکتی ہے کہ امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب اور حضرت زینبؑ خداوندمتعال کو ہرجگہ دیکھ رہے تھے اسکا جلوہ دیکھ رہے تھے ہر واقعہ میں اسے دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے تھے خواہ وہ واقعہ خوشگوار تھا یا ناگوار، آسان تھا یا مصائب سے بھرپور لیکن چونکہ انکا ہدف خدا تھا مشکلات اور سختیوں میں بھی خد اکو مشاہدہ کررہے تھے اور خود کو خدا سے قریب دیکھتے تھے تو یہ سختی اور مشکل انہیں خوبصورت لگتی تھی لہذا حضرت زینبؑ نے فرمایا کہ یہ مصائب اور تلخ واقعات ہمارے لیے خوبصورت تھے۔

حوالہ:پاسخ بہ شبہات حوزہ

مزیدحوالہ جات:

1۔بحار الانوار، علامه مجلسي، ج 45، ص 115

2 . عرفان نظري، استاد يزدان پناه، درس 38، ص 82، مؤسسه امام خميني.

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

ثانی زہراء علیہا السلام،عقل کے کمال کی بہترین مثال

حضرت زینب علیہا السلام کا یہ کلام توحید کے اعلی ترین مراتب اور بندگی اور عبودیت میں قرب خدا  پر دلالت کرتاہے۔معشوق کی نسبت عاشق کے انتہائی ادب  پر دلیل ہے۔