سر ورق / داستان و حکایات / حضرت ابوذر غفاریؓ کی رسول اللہؐ سے والہانہ محبت

حضرت ابوذر غفاریؓ کی رسول اللہؐ سے والہانہ محبت

امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:  جنگ تبوک کے دوران لوگوں نے آنحضرتؐ سے کہا: ابوذر ؓ قافلے سے پیچھے رہ گیا ہے۔

جب یہ سنا تو آنحضرتؐ نے صبح کی سفیدی نمودار ہونے سے پہلے ہی پڑاؤ ڈالا یہاں تک کہ صبح ہوگئی، پھر آپؐ ابوذرؓ کی راہ تکنے لگے، اتنے میں دور سے اس کو اپنے شانے پر ردا رکھ کر  آتا ہوا دیکھا ۔

ابوذرؓ کی سواری چلنے سے رہ گئی تھی ، اور وہ اسکے چلنے کا انتظار کرتا رہا جب دیر ہوگئی تو اپنا سامان خود اٹھا کر پیدل چل نکلا تھا۔

لوگوں نے کہا: یہ ابوذرؓ ہے۔

تو آپ نے فرمایا: ابوذرؓ اکیلا چلے گا، اکیلا آئے گا، اکیلا اس دنیا سے رخصت ہو  گا اور قیامت کے دن اکیلا ہی محشور ہوگا، اسے پانی پلائیں وہ پیاسا ہے۔

اصحاب نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! اس نے جو مشکیزہ اٹھایا ہوا ہے پانی سے بھرا ہوا ہے۔

آپ نے فرمایا: کہیں وہ پیاس سے مر نہ جائے، اسے پانی پلائیں وہ پیاسا ہے۔

ابو قتادہ کہتا ہے: میں نے اپنے ظرف میں پانی بھرا اور ابوذر کی جانب لپکا جب اس کے پاس جا پہنچا۔ تو اس نے گھٹنوں پر بیٹھ کر پانی سے اپنی پیاس بجھائی۔

میں نے کہا: رحمك اللہ! مشکیزہ پانی سے بھرا ہوا ہے اور خود اتنا پیاسا ہے !؟

ابوذر نے کہا: میں جب آرہا تھا تو راستے میں مجھے ایک پتھر پر باران رحمت کا ذخیرہ ملا، اپنے مشکیزے کو پانی سے بھرا اور  من ہی من میں کہا کہ یہ میٹھا اور گوارا پانی اللہ کے حبیبؐ کو  ہی پلاؤں گا۔

(باحذف واضافہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ:‌ قَالَ النَّاسُ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ تَخَلَّفَ أَبُوذَرٍّ

 فَنَزَلَ بِسَحَرٍ طَوِيلٍ‌ فَلَمْ يَبْرَحْ مَكَانَهُ حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ جَعَلَ يَرْمَقُ الطَّرِيقَ حَتَّى طَلَعَ أَبُو ذَرٍّ يَحْمِلُ كِسَاهُ‌ عَلَى عَاتِقِهِ قَالَ وَ قَدْ تَخَلَّفَ عَنْهُ بَعِيرُهُ فَتَلَوَّمَ‌ عَلَيْهِ فَلَمَّا أَ بْطَأَ عَلَيْهِ أَخَذَ مَتَاعَهُ وَ مَضَى قَالَ هَذَا أَبُو ذَرٍّ فَقَالَ النَّبِيُّ ص أَبُو ذَرٍّ يَمْشِي وَحْدَهُ وَ يَجِي‌ءُوَحْدَهُ وَ يَمُوتُ وَحْدَهُ وَ يُبْعَثُ وَحْدَهُ اسْقُوهُ فَإِنَّهُ عَطْشَانُ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ إِدَاوَةٌ مُعَلَّقَةٌ مَعَهُ بِعَصَاةٍ مَمْلُوءَةٌ مَاءً-

قَالَ فَالْتَفَتَ وَ قَالَ فَإِيَّاكُمْ أَنْ تَقْتُلُوهُ اسْقُوهُ فَإِنَّهُ عَطْشَانُ

 قَالَ أَبُو قَتَادَةَ فَأَخَذْتُ قَدَحِي فَمَلَأْتُهُ ثُمَّ سَعَيْتُ بِهِ نَحْوَهُ حَتَّى لَقِيتُهُ فَبَرَكَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ شَرِبَ حَتَّى أَتَى عَلَيْهِ فَقُلْتُ رَحِمَكَ اللَّهُ أَ بَلَغَ مِنْكَ الْعَطَشُ مَا أَرَى وَ هَذِهِ إِدَاوَةٌ مَعَكَ مَمْلُوءَةٌ مَاءً قَالَ إِنِّي مَرَرْتُ عَلَى نَضْحَةٍ مِنَ السَّمَاءِ عَلَى صَخْرَةٍ فَأَوْعَيْتُهَا إِدَاوَتِي وَ قُلْتُ أَسْقِيهَا رَسُولَ اللَّهِ‌۔

حوالہ:الخرائج صفحہ 99-100

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

 حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب کی شجاعت

میں نے دیکھا حسان  نےتو صاف جواب دیدیا ہے۔میں نے خود کمر ہمت باندھی اور قلعہ سے باہر نکلی اور ایک خیمے کی لکڑی سے اس پر حملہ آور ہوئی.