آئمہ اطہاؑر اعمال پر ناظر اورانکے سامنے پیش ہوتے ہیں تو خدا کے ستار العیوب ہونے کا کیا مقصد ہے؟
جواب:
آئمہ اطہاؑر ہمارے اعمال پر ناظر ہوتے ہیں جب بھی ہم گناہ کرتے ہیں تو وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ہمارے اعمال امام عصر عج کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں تو اس لحاظ سے خدا وندمتعال کے ستار العیوب ہونے کا کیا مقصد ہے؟یعنی کیا یہ اعمال کا آئمہ علیہم السلام کی خدمت میں پیش کیا جانا خدا کے ستار العیوب ہونے کے منافی نہیں؟
خدا کے ستار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسانوں کے اعمال کو دوسرے انسانوں کی نظروں سے چھپاتا ہے تاکہ انکی عزت محفوظ رہے۔پیغمبر اسلامﷺ او ر آئمہ طاہرین علیہم السلام خدا کے اسماءو صفات کا مظہر ہیں جیساکہ خدا لوگوں کے اعمال پرناظر ہے اسی طرح پیغمبرؐ اور آئمہؑ خدا کی مخلوق کے درمیان خدا کی آنکھ ہیں اور ہمارے اعمال دیکھتے ہیں۔
اسی طرح خدا کی نظارت کی طرح پیغمبر اسلامﷺ اور آئمہ اطہارؑ کی لوگوں کے اعمال پر نظارت کے متعدد فوائد ہیں۔یعنی جیسے خدا کا ستار ہونا لوگوں کی تربیت اور ترقی میں مددگار ہے اسی طرح لوگوں کے اعمال کا پیغمبر اسلامﷺ اور آئمہ اطہارؑ کی خدمت میں پیش ہونا بھی مفیدہے کیونکہ امت کی ہدایت کرے والے خدا کی طرف سے منصوب ہیں اور خدا کا فیض انہیں ہستیوں کی بدولت لوگوں پر نازل ہوتا ہے۔اس بنا پر اس مسئلہ میں کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
“خدا وند متعال تو ستار العیوب ہے وہی جانتا ہے کہ کہاں چھپائے کہاں نہ چھپائے۔اگر کوئی دوسروں کے اعمال کا ستار العیوب ہو جبکہ خود اسی وقت مخفی طور پر گناہ بھی کرے تو خدا بھی راضی نہیں ہوتا کہ اسکے راز بھی دوسروں کے سامنے فاش ہوں۔ یہاں تک کہ روز قیامت بھی خدا نہیں چاہے گا جو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں وہ بھی ایک دوسرے کے اعمال سے باخبر ہوں۔بنابریں خود انسان کا اپنا عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے اگر کوئی کسی کے اعمال کا پردہ فاش نہ کرے اورخود بھی اعلانیہ گناہ نہ کرے تو خدا بھی اسکے اعمال کو فاش نہیں کرے گا۔اس بنا پر اگر کوئی اپنے قلم،بیان اور اپنی غلط افکار سےدین خدا اور لوگوں کی عزت و آبرو سے کھیلے تو خدا بھی اسکی آبرو محفوظ نہیں رکھے گا۔یہاں پر خدا وند متعال اجازت دیتا ہے کہ اہل دل دیکھ سکیں کہ اس نے کیا کیا ہے؟ یہاں تک کہ یہ بھی ممکن ہے روز قیامت دوسروں کے سامنے رسوا ہو۔”1
حوالہ:آفتاب مہر،سوالات و جوابات مہدوی،ص 56
1۔پرسش و پاسخ ھا ج 2،ص 56