انبیاء اور اہلبیتؑ کی قبروں کے پاس نماز پڑھنا شرک ہے؟
جواب:
وہابیت کا ایک اعتراض یہ ہے کہ انبیاء اور اہلبیتؑ یا دیگر مزاروں کے پاس نماز پڑھنا شرک ہے اور یہ نماز انکی عبادت کے مترادف ہے۔
انبیاء اورآئمہ طاہرینؑ کی قبروں کے پاس نماز پڑھنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ ا س سے تبرک حاصل کیا جائے۔جہاں وہ ذوات مقدسہ دفن ہیں اور جن کے اجساد مطہرہ کی وجہ سے وہ مقامات متبرک ہیں۔ ظاہر ہے اسکا تعلق ان امور سے ہے جنہیں شریعت مقدسہ میں بالکل واضح بیان کیا گیا ہے۔البتہ اس بات کو سمجھنے کے لیے شرط یہ ہے کہ انسان کا ذہن ا ن قواعد سے پاک ہو جو تکفیریوں نے توحید و شرک کے لیے گھڑ رکھے ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
1۔مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ
وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى
ترجمه: حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ.سوره بقره ۱۲۵
اس آیت میں کیا وجہ ہے کہ خدا مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنائیں؟یقینا یہ تبرک حاصل کرنے کے علاوہ کوئی سبب نہیں کیونکہ یہ جگہ حضرت ابراہیمؑ کے بدن مطہر سے مس ہوئی ہے لہذا یہ قیامت تک کے لیے متبرک بن گیا اور مسلمانوں کے لیے مصلٰی قرار پایا۔
2۔ اصحاب کہف کی قبور پر مسجد بناؤ
اصحاب کہف کے متعلق جب انکشاف ہوا تو لوگوں میں اختلاف ہوا کہ ا ن کا احترام کیسے ہو؟ تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔
1۔ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ
بعض نے کہا: ان کے غار پر ایک عمارت بنادی جائے-خدا ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے.سوره کهف ۲۱
آیت میں جو تعبیر آئی ہے کہ اللہ انکے حال سے خوب واقف ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہنے والے توحید پرست نہ تھے اور ان امور کو حقیر سمجھ رہے تھے۔
2۔لیکن بعض دوسروں نے کہا کہ ہم اس متبرک مقام پر مسجد بنائیں گے تاکہ اصحاب کہف کا متبرک جوار عبادت خدا کا مرکز بن جائے جنہوں نے توحید کے لیے اتنی تکالیف برداشت کی۔
آیت: قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا
ترجمه: جو لوگ دوسروں کی رائے پر غالب آئے انہوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے.ایضا
مفسرین نے لکھا یہ بات کہنے والے توحید پرست تھے۔
اس حوالے سے اہلسنت علماء کرام جیسے طبری،رازی،زمخشری،شاپوری وغیرہ نے بھی یہی بات لکھی جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے جن کی رائے غالب آئی وہ مسلمان تھے اور یہی اولیٰ اور حقدار تھے کہ اصحاب کہف کے مزارات کی حفاظت کریں۔
وہابیت کا استدلال
اکابرین وہابیت اولیاء کرام کی قبور پر نماز پڑھنے کو ان روایات کی بنا پر حرام قرار دیتے ہیں:
1۔بخاری نے یہ روایت نقل کی ہے:
یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مسجد بنا لیا ،حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آنحضرتؐ کی قبر کھلی رہتی حجرے میں نہ ہوتی مگر مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپؐ کی قبر بھی مسجد نہ بنا لی جائے۔
2۔مسلم نے یہ روایت کی ہے:
خبردار تم سے پہلے لوگ اپنے پیغمبرو ں اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد بنا لیتے تھے کہیں تم بھی قبروں کو مسجد نہ بنا لینا میں تمہیں اس بات سے منع کرتا ہوں۔
3۔مسلم نے یہ روایت بھی کی ہے:
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ رض نے رسول خداؐ سے ایک گرجا گھر کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبش میں دیکھا تھا۔اس میں رسول اللہؐ کی تصویر لگی ہوئیں تھیں آپؐ نے فرمایا: ان لوگوں کا یہی حال تھا جب ان میں کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد تعمیر کرتے اور وہاں تصاویر بناتے یہ لوگ قیامت کے دن خدا کے سامنے سب سے بدتر لوگ ہوں گے۔
ہمارا قول
پہلی دوحدیثوں کی سند ضعیف ہے اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی اسکا مطلب اصل کے خلاف ہے کیونکہ یہودیوں کی تاریخ سب کو معلوم ہے کہ صدیوں تک اپنےانبیاء کو قتل کرتے رہے خود قرآن مجید نے اسے نقل کیا ہے:
اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کو قتل کرنا انکا مشغلہ تھا۔پس جو قومیں صدیوں تک جنہیں قتل کرتی رہی ہوں کیا وہ انکی قبور کو مساجد بنائیں گی اور انکے جوار میں نمازیں پڑھیں گی؟؟
تیسری روایت کے متعلق ہمارا قول یہ ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ رض نے حبشہ کے گرجا گھر میں جو تصویر دیکھی تھی وہ بعثت سے پہلے دور سےتعلق رکھتی ہے جب بعثت کے شروع میں جب رسولؐ کی نبوت کی خبر پہنچی تو وہاں انہوں نے رسولؐ کی تصویر لگا لی لہذا رسول اللہ کا جو لفظ روایت میں آیا ہے اس سےمراد حضرت عیسیٰؑ نہیں بلکہ رسولخداﷺ کی ذات گرامی ہے۔
البتہ نسائی اور بیہقی کی روایت میں رسول اللہ کا لفظ نہیں آیا۔
بہرحال صاحبان قبور کے تقدس اور احترام میں اور برکت کی خاطر مسلمانوں کا مزاروں پر قبور بنانا اور وہاں نماز ادا کرنا اتنا مشہور ہے کہ ان روایات سے حرمت پر استدلال کرنا ایک امر بعید ہے۔
ایک نکتہ کی وضاحت
یہ دیکھا جائے کہ ا ن روایات کا مقصد کیا ہے؟کیا مقصد یہ ہے کہ حقیقتا قبور پر مسجد بنانا اور ہاں نماز پڑھنا حرام ہے؟ یا مقصد کچھ اور ہے؟
اگر غور کیا جائے تو اسکا مقصد وہ نہیں ہے جو اکابرین وہابیت بیان کرتے ہیں بلکہ یہود و نصاری اپنے انبیاء کی قبور کو اپنا قبلہ قرار دیتے تھے یہی نہیں بلکہ خدائے واحد وقہار کی عبادت چھوڑ کر ان انبیاء کی عبادت کرنا شروع کردیتے تھے یا انبیاء کو عبادت میں اللہ کا شریک قرار دیتے تھے۔
اسکے شواہد یہ ہیں کہ روایت میں ہے کہ وہ صالحین کی تصویریں لگاتے تھے تاکہ ا ن تصویروں کو سجدہ کریں اور صنم قرار دے کر انکی عبادت بجا لائیں۔
اسکے باوجود اس روایت کو استدلال کے لیے پیش کرنا صحیح نہیں کیونکہ قبور کے پاس نمازادا کرنے سے صاحب قبر کی عبادت کا تصور تک نہیں ہوتا۔
احمد بن حنبل نے روایت کا تتمہ نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے قبور کو مساجد قرار دینے سے منع فرمانے کے بعد فرمایا:
خدایا تو میری قبر کو بت نہ بنا دینا تاکہ اسکی عبادت کی جائے!
پس اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہود ونصاری قبور ،تصاویر اور مجسموں کو قبلہ قرار دیتے تھے یا صنم مان کر انکی عبادت کرتے تھے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر فرض کرلیا جائے کہ پیغمبر اکرمؐ نے قبور کے پاس مسجد تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ممناعت تحریمی ہے بلکہ ممکن ہے یہ ممانعت تنزیہی ہو ۔اور اس بات پر ہماری دلیل بخاری کا استدلال ہے انہوں نے اس روایت کو حرمت والے باب میں ذکر نہیں کیا بلکہ کراہت والے باب میں ذکر کیا ہے۔
حسن ختام
زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ قبور کے پاس نماز پڑھنا کیسا ہے؟ آپؑ نے ارشاد فرمایا:
قلت له: الصلاة بين القبور؟ قال: (صل في خلالها – ) ولا تتخذ شيئا منها قبلة، فان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نهى عن ذلك، وقال: لا تتخذوا قبري قبلة ولا مسجدا.(جامع احادیث شیعه ج ۴ ص ۳۸۲)
نماز ،قبو ر کے درمیان خالی جگہ میں پڑھو مگر ان میں کسی کو قبلہ نہ بناؤ اس لیے کہ رسول اللہؐ نے قبور کو قبلہ بنانےکی ممانعت کی ہے اور فرمایا ہے: میری قبر کو قبلہ یا مسجد مت بنانا،یقینا اللہ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جو انبیاء کی قبور کو مسجد بناتے ہیں۔
حوالہ:خلاصه بحث،تکفیری عناصر کی فتنه انگیزیاںآیت الله جعفر سبحانی دام ظله ،ص ۹۹