سر ورق / شبہات کے جوابات / مُردوں کو ثواب ایصال کرنا

مُردوں کو ثواب ایصال کرنا

اعتراض

(وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ)1

ترجمہ: اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔

وہابیت کا اعتراض یہ ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کے مطابق انسان فقط اپنی کوشش کا نتیجہ لےسکتا ہے پس دوسرو ں کا مرنے والوں کو اعمال کا ثواب ہدیہ کرنا بے فائدہ ہے۔پس مرنے کے بعد انسان کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچایا جاسکتا۔

جواب:

وہابیت کا اعتراض یہ ہے کہ انسان جب کسی عمل کے لیے کوشش اور جد وجہد کرتا ہے تو فقط اسے ہی اسکا نتیجہ ملتا ہے اور مرنے کے بعد کسی دوسرے سے کوئی ثواب اسے نہیں مل سکتا۔

پیغمبر اکرمﷺ سے روایت نقل ہوئی ہے  کہ مُردے زندہ لوگوں کے اعمال کے ثواب سے مستفید ہوتے ہیں ۔پس اس مذکور بالا آیت کے مقصود کے متعلق غور کیا جائے کہ اس آیت سے کیا مراد ہے؟

اولا: لوگوں کے درمیان جو مشہور ہے اسکے برخلاف یہ آیت اعمال کے ثواب کے بارے میں نہیں ہے بلکہ کیفر و سزا کے متعلق ہے کیونکہ یہ جملہ

(وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ)

 اس جملہ

(أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ)2

ترجمہ: کوئی شخص بھی دوسرے کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے۔

کے بعد آیا ہے۔

پس یہ آیت اس زیر بحث  موضوع کے متعلق نہیں یعنی اعمال کا ثواب مردوں کو پہنچانا یا ایصال کرنا۔

ثانیا: بالفرض اگر یہ آیت تمام اعمال بشمول جزا و سزا کے  متعلق ہو تو توجہ کریں کہ یہ آیت اعمال کے بارے میں کلی ضابطہ بیان کررہی ہے اور کلی قانون یہ ہے کہ ہرکوئی اپنے عمل کا نتیجہ دیکھے گا اور یہ بات اس سے منافی نہیں کہ کبھی کبھار انسان دوسروں کے اعمال سے بھی مستفید ہوتا ہے۔اگر کوئی والد بیٹے کو سفارش کرے کہ زندگی میں اپنی کوشش پر بھروسہ کرنا تو اسکا یہ ہرگزمطلب نہیں کہ بیٹا جب داماد بنے تو اپنے سسر سے تحفہ نہ لےیاجیساکہ اگر کوئی دوست سفر پر گیا ہو اور وہ وہاں سے کوئی سوغات اپنے دوست کے لیے لائے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ قرآن نے منع کیا ہے یا میرے باپ نے کہا ہے کہ اپنی کوشش پر بھروسہ کرنا۔میں یہ تحفہ  نہیں لے سکتا بلکہ یہ تحفہ وصول کرنا اس کلی قاعدہ سے استثنا ہےپس یہ آیت اس کلی قاعدہ سے منافات نہیں رکھتی۔

ثالثا:ذہین افراد اس نکتے کی جانب متوجہ ہوں کہ دوسرے لوگ جو عمل اس میت کے لیے انجام دے رہے ہیں وہ در حقیقت اسی مرحوم کی کوشش کا نتیجہ ہے ۔جیسے اگر کوئی کسی کے لیے سورہ یسین کی تلاوت کرتا ہے یا اسی جانب سے عمرہ بجا لاتا ہے درحقیقت اسی مرحوم کی کوشش کا نتیجہ ہےکیونکہ  اس دنیا میں وہ شخص مومن تھا اور اسی ایمان کی وجہ سے دوسرا  شخص اس سے محبت کرنے لگا اور اسکی موت کے بعد اس کے لیے عمل خیر انجام دینے لگا۔اس لیے کہ مسلمان شخص کسی کافر کے لیے عمل خیر انجام نہیں دیتا حتی کہ وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوتا کہ اپنے بعض اعمال کا ثواب کسی مرنے والے گناہگاہ مسلما ن کو ہدیہ کرے بنابریں دوسروں کے اعمال کا ثواب جو اس مومن میت کو ملتا ہے وہ درحقیقت اسی مرحوم مومن کی کوشش کا نتیجہ ہے البتہ یہ کوشش و سعی خود اس نے نہیں بلکہ وہ سبب بنا ہے کہ دوسرے کوشش کریں۔

ترجمہ:ثقلین فاؤنڈیشن قم ایران

حوالہ:درسنامہ نقد وہابیت،آیت اللہ سبحانی دام ظلہ،221،222

1۔سورہ نجم آیت 39

2۔ایضا آیت 38

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

استغاثہ مخالف روش سلف

صحابہ کی جانب سے کسی کام کو انجام نہ دینا "سنت ترکیہ" کہلاتا ہے جو استغااثہ کے خلاف شرع ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔