ایک عرصہ سے پاکستانی میڈیا میں ایسی خبریں شائع کی جارہی ہیں کہ ایران میں حالات انتہائی خراب ہیں اور امن و امان کی صورتحال بہت ناگفتہ بہ ہے ۔اب پاکستانی میڈیا نے انقلاب دشمن میڈیا کی ایک خبر شائع کی ہے جس میں کہا گیا کہ ایرانی سپریم لیڈر کی بھانجی کو گرفتار کرلیا گیا جوکہ مظاہروں کی حمایت کررہی تھیں اور اب آیت اللہ خامنہ ای کی بہن نے ان سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے مظاہرین کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کیا ہے۔
حقیقت کیا ہے؟
اس پر ذرا روشنی ڈالتے ہیں کہ یہ بدری خانم کون ہیں؟
یہ خاتون آیت اللہ خامنہ ای کی بہن اور انکا نام بدرالسادات خامنہ ای ہے۔آخری مرتبہ انکا نام زبان زد عام ہوا جب انکے شوہر شیخ علی تہرانی کا انتقال ہوا۔علی مراد خانی المعروف شیخ علی تہرانی جوکہ ایک عالم دین اور امام خمینی مرحوم کے شاگرد تھے۔انقلاب کے بعد دہشتگرد تنظیم مجاہدین خلق میں شامل ہوگئے اور انکی حمایت کرنے لگے یہ وہی تنظیم ہےجس نے ایران کے مختلف شہروں میں عوام کو سرعام گولیوں کا نشانہ بنایا اور 17 ہزار بے گناہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جب ایران کے سابقہ صدر بنی صدر نے معزول ہونے کے بعد راہ فرار اختیار کی تو اس کے ہمراہ مجاہدین خلق کے سربراہ رجوی بھی فراری ہوگیا ۔یہ وہی رجوی تھا جس نے اپنی تنظیم مجاہدین خلق میں قانون بنایا تھا کہ آج کے بعد تمام شادی شدہ ممبران کی میرے حکم سے طلاق ہوگئی ہے اور انکی بیویاں بغیر نکاح کے میرے حلقہ ازدواج میں شامل ہوچکی ہیں کسی کو حق نہیں کہ وہ کسی خاتون سے ازدواجی تعلق قائم کرے کیونکہ وہ سب میری بیویاں ہیں۔یہ اس کی خباثتوں میں سے ایک خباثت ہے۔
کچھ عرصہ کے بعد شیخ علی تہرانی بھی اچانک بغداد پہنچ گئے۔بدری خانم بھی اپنے بچوں کو لے کر پہلے ترکیہ گئیں پھر وہاں سے عراق اپنے شوہر کے پاس چلی گئیں۔
شیخ علی تہرانی ایرا ن عراق جنگ میں ایرانی قیدیوں کے لیے تقاریر کرتے تھے اور امام خمینی کی خلاف بدگوئی اور ہرزہ سرائی کرتا تھا اور مجاہدین خلق کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے خلاف صدام حسین کی خدمت پر مامور تھا جب عراق حکومت نے اس سے اپنا کام لے لیا تب اسے عراق سے چلے جانے کو کہا۔
شیخ علی تہرانی اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ عراق حکومت کو اب میری ضرورت نہیں رہی تو میں نے آیت اللہ خامنہ ای کو خط لکھا اور ا سے درخواست کی میری اہلیہ اور بچوں کو ایران واپس آنے کی اجازت دی جائے۔ ایک مہینہ بعد سفارت ایران کو پیغام آیا کہ میری فیملی کے ایران جانے کا بندوبست کرے۔
شیخ علی تہرانی کو عراق حکومت نے لا کر ایران عراق بارڈر پر چھوڑ دیا جہاں انہوں نے خود کو ایرانی بارڈر فورسز کے حوالے کیا اگرچہ یہ شخص پھانسی کا مستحق تھا لیکن چار سال جیل میں رہنے کے بعد بیماری کی وجہ سے رہا کردئیے گئے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ حکومت اور انقلاب اسلامی نے ان کی فیملی کے ساتھ اچھائی کی لیکن انہوں نے اپنے والد کی راہ پر چلتے ہوئے دشمنی کو اپنایا اور آج انکا بیٹا اور بیٹی یعنی آیت اللہ خامنہ ای کا بھانجا اور بھانجی دشمن کے ہاتھوں میں ملک کے خلاف کھیل رہے ہیں۔البتہ یہ بات کوئی نئی نہیں ہے کیوکہ آیت اللہ خامنہ ای کے بعض دیگر رشتہ داروں نے بھی دشمنی کا طریقہ کار اپنایا ہوا ہے۔
یہی بہترین دلیل ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کے رشتہ دار آپ سے فکری اختلاف رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر موروثی حکومت کا الزام غلط ثابت ہوا ہے۔
البتہ یہ بھی واضح ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کے رشتہ دار دلسوزی یا تنقید کی وجہ سے ان کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ یہ مخالفت اس لیے ہے کہ انہیں حکومتی عہدہ اور منصب نہیں ملا کیونکہ وہ سپریم لیڈر کےرشتہ دار ہیں اسی طرح آیت اللہ خامنہ ای نے بیٹوں سے وعدہ لیا کہ وہ صرف حوزہ علمیہ میں تدریس و تحقیق میں مشغول رہیں گے اور کوئی حکومتی عہدہ قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی اپنا کوئی کاروبار کریں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای کے بعض گارڈ اور قریبی افراد اور خاص کر لندن نشین وہ لوگ جو حکومت مخالف ہیں وہ بھی ا ن کی سادہ زندگی کی تعریف کرتے ہیں اور انکے بقول آیت اللہ خامنہ ای کی زندگی میں کوئی ایسا نکتہ نہیں جسے بنیاد بنا کر ان پر کیچڑ اچھالا جاسکے۔
پھونکوں سے چراغ بجھایا نہ جائے گا!
دشمن نے چاہا کہ آیت اللہ خامنہ ای کی بھانجی اور بہن کی مخالفت کو ان کے خلاف استعمال کرسکیں لیکن وہی چیز آیت اللہ خامنہ ای کی حقانیت کی دلیل بن گئی۔
ثقلین فاؤنڈیشن قم