ایران میں حالیہ مظاہروں کی لہر چل رہی ہے جو چوتھے مہینے میں داخل ہوچکی ہے اور اس طولانی مدت مظاہروں کا ایک فائدہ ہوا ہے کہ ایرانی عوام نے ان مظاہرین سے اپنے راستے جدا کرلیے ہیں جو صرف دنگا فساد اور ناامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ اب حکومت اور عوام دونوں دیکھو اور انتظار کر و کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اسی وجہ سے ہڑتالوں کے لیے دعوت عام کا کوئی اثر نہیں ہورہا سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ان مظاہروں کو صرف انقلاب دشمن میڈیا ہی بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے بقول کسی کے انقلاب دشمن میڈیا ہر روز شام چار بجے ایرانی حکومت گرا دیتا ہے اور صبح پھر سے وہی حکومت اور وہی صدر رئیسی سامنے بیٹھے ملتے ہیں۔انہیں حالات کو مدنظر رکھتے ہوے ایک غیرملکی سوشل میڈیا صارف نے ایرانی مظاہرین کےنعروں کا تجزیہ کیا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے؟
1۔ وہ لکھتے ہیں کہ مظاہرین نے کوئی اعلامیہ یا کوئی ایسا نعرہ نہیں دیا جو عوام کی عام زندگی کی ضروریات کے بارے میں ہو جیسے پانی بجلی اور گیس کیونکہ یہ سب ایران میں انتہائی کم قیمت پر اور بہترین ٹیکنالوجی کے ذریعہ انہیں مل رہا ہے اور تمام شہروں میں گیس پائپ لائن بچھی ہیں اور لوڈشیڈنگ کا نام ونشان ہی نہیں ہے۔
2۔ مظاہرین کے مطالبات میں تعلیم اور صحت کے متعلق بھی کوئی مطالبہ نہیں ہے کیونکہ اسلامی انقلاب نے تعلیم اور صحت کے شعبے میں واقعی ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ بارہویں کلاس تک تعلیم مکمل طور پر پوری ایرانی عوام کو مفت میں میسر ہے اور 95 فیصد عوام کو ضروری دوائیاں کم قیمت پر مہیا ہیں پوری قوم کی حکومتی سرپرستی میں میڈیکل انشورنس ہو چکی ہے،بہترین ہسپتال موجود ہیں جن میں سالانہ ہزاروں غیر ملکی مریض بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
3۔ اسی طرح ملک کی مواصلات کے بارے میں بھی کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا کیونکہ موٹرویز اور کارپٹڈ روڈ موجود ہیں اور میٹرو ٹرین اور بسیں اور ٹرین اور جہازوں کی سہولت بھی کم قیمت پر عوام کو میسر ہے۔ایران میں چھوٹے بڑے 70 نیشنل ایئرپورٹ موجود ہیں۔
4۔ ایسی طرح مظاہرین نے کوئی ایسا اعلامیہ نہیں دیا جو ماحول کی خوبصورتی کے لیے ہو انسان جب ایرانی شہروں میں داخل ہوتا ہے تو شہر سرسبز دکھائی دیتے ہیں اور حکومت اور عوام ان پر بھرپور توجہ دیتے ہیں۔شہر اور دیہات انتہائی خوبصورت اور صاف ستھرے ہیں ۔
5۔مطالبات میں لیبر قوانین کے بارے میں بھی کچھ نہیں کیونکہ ایران میں لیبر قوانین دنیا کے سرمایہ دار ممالک سے حددرجہ بہتر ہیں اور مزدور کی حمایت کی جاتی ہے۔جس میں خاص کر میڈیکل انشورنس اور ڈیتھ انشورنس سرفہرست ہے اور کام کا وقت اور تعطیلات بھی معین ہیں۔
6۔ بلڈنگ منسٹری سے بھی کوئی مطالبہ نہیں ہے کیونکہ ایران میں حکومت نوجوانوں کوسستے گھر فراہم کرتی ہے جو امیر ممالک میں لاکھوں نوجوانوں کی دلی حسرت ہوتی ہے۔
7۔فکری آزادی کے متعلق بھی کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا ایرانی میڈیا آزاد لکھتا اور تنقید کرتا ہے ۔
8۔ سب سے اہم یہ کہ صنعت اور تحقیق کے متعلق کوئی اعلامیہ سامنے نہیں آیا کیونکہ اس حوالے سے ایرا ن نے معجزہ کیا ہے کافی حد تک سب کچھ ملک میں بن رہا ہے ایرانی ذہن کی محنت اس میں کارفرما ہے جیسے ڈرون سے لیکر میزائل تک اور جہازوں کی اوورہالنگ تک سب کچھ ملکی سطح پر تیار ہورہا ہے۔
9۔ موسیقی ،سینما،شعر اور فیلم و ڈرامہ اور ورزش کے متعلق بھی مظاہرین نے کچھ نہیں کہا کیونکہ ایران ان تمام چیزوں میں کئی ممالک سے بہت آگے ہے۔
10۔ہاں البتہ مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ یہ ڈکٹیٹر نظام اور حکومت اور ملا مل کر ملاء عام میں بوس و کنار اور پردہ نہ کرنے اور شراب نوشی اور فسق و فجور کی اجازت نہیں دیتا اسی لیے ہم اس کے خلاف ہیں۔
مغرب نے انکے ذہنوں میں بٹھا دیا ہے کہ پردے سے خواتین کی ترقی نہیں ہوتی لہذا یہ نہیں ہونا چاہیئے جبکہ ایرانی خواتین تعلیم،صحت ،فوج ،پولیس، میڈیکل،انجیئنرنگ، تجارت،دفاتر اور دیگر شعبوں میں آگے آگے ہیں اور پوری دنیا میں انکی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
پس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آج دنیا میں انٹرنیٹ پر سب کچھ موجود ہے انسان دشمن کی باتوں پر دھیان کم دے اور تھوڑا سرچ کرلے سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔
حوالہ: سوشل میڈیا(باحذف و اضافہ)