انسانی قابلیت
انسان خَلق کے اعتبار سے بالفعل ہے یعنی رحم مادر میں اس کے اختیار کے بغیر ہی اس کی تخلیق کامل ہوجاتی ہے لیکن انسان خُلق کے لحاظ سےبالقوہ دنیا میں آتا ہےاور بذات خود اپنے خُلق کی تعمیر کرتا ہے۔۔۔۔
حیوانات کا انسان سے ایک فرق ہے کہ حیوانات جب دنیا میں آتے ہیں تو جسمانی اور روحانی طور پر بالفعل ہوا کرتے ہیں یعنی حیوان دنیا میں کچھ غرائز کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے وہ آخر عمر تک اسی طرح رہتا ہے کبھی قابل تغییر و تبدیل نہیں ہوتا۔سوائے معمولی ترین سطح پر قابل تغییر ہوتا ہے۔۔۔ لیکن انسان روحانی طور پر اپنے جسم سے ایک منزل پیچھے رہتاہے یعنی اس کا جسم رحم ماد رمیں مکمل ہوچکا ہوتا ہے مگر روح اسی دنیا میں تکمیلی مراحل کو طے کرتی ہے۔اسی وجہ سے کہا جاتا ہے دنیا انسانی کے لیے رحم کی حیثیت رکھتی ہے۔
جسمانی اعتبار سے رحم مادر میں اپنی تخلیق خود نہیں کرتا بلکہ اسے وہاں بنایا جاتا ہےباقی روحانی اعتبار سے خود کو اس دنیا میں بناتا ہے۔اپنی تعمیر اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ اس بات کا بھی یہی مطلب ہے کہ دنیا میں انسان کے اپنے ہاتھ میں قلم و قضا اور قدر دے دیا گیا ہے۔اپنی روحانی عمارت کی نقش و نگاری تعمیر خود انسان کے اپنے حوالے کی گئی ہے ۔انسان کو مختلف نمونے دکھائے گئے ہیں کچھ انسان کامل ہیں اور کچھ شرور انسان ہیں کہا گیا ہے خود کو ان نمونوں کے مطابق ڈھالو؛ مثلا یہ پیغمبر اسلامؐ ہیں یہ علیؑ ہیں یہ امام حسنؑ ہیں یہ امام حسینؑ ہیں یہ سلما ن ہیں یہ ابوذر ہیں اور دوسری جانب فرعون ہے ہاما ن ہے نمرود ہے اب تمہاری مرضی ہے اپنی روحانی آنکھ اُن کی طرح بناؤ یا اِن کی طرح بناؤ۔روحانی آبرو ان کی طرح بناؤ یا ان کی طرح بناؤ روحانی رگ ان کی طرح بناؤ یا ان کی طرح بناؤ ۔اسے کہتے ہیں خُلق اور اخلاق چنانچہ روحانی احوالات جب انسان میں مَلَکہ کی صورت اپنا لیتے ہیں تو اسے خَلق کہا جاتا ہے۔
نفسیات دان اچھی بات کہتے ہیں یعنی جس بات کو حکماء اور فلاسفہ اس تعبیر سے بیان کرتے ہیں ۔انسان روحانی طور پر بالقوہ اس دنیا میں آتا ہے کہتے ہیں انسان جب دنیا میں آتا ہے تو نفسیاتی طور پر ایک نرم مادہ کی طرح ہوتا ہے۔جو سخت اور محکم بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اس نرم مادہ کو کسی بھی سانچے میں ڈھال دیا جائے اس سانچے کے مطابق محکم اور سخت بن جائے گا ،مثال کے طور پر وائٹ سیمنٹ جب اس میں پانی ملایا جاتا ہے تو وہ ایک نرم مادہ کی شکل اختیار لیتا ہے اب اس نرم مادے کو کسی بھی سانچے میں ڈال دیں آدھ گھنٹے بعد وہی روپ دھار لے گا۔۔۔
آغاز میں انسان بھی نفسیاتی طور پر اسی نرم مادہ کی مانند ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ اپنی شکل تبدیل کرنا شروع کردیتا ہے البتہ وائٹ سیمنٹ کی طرح اتنی جلدی صورت تبدیل نہیں کرتا بلکہ جیسے جیسے انسان کی عمر اختتام کے قریب ہوتی جاتی ہے تبدیلی کی گنجائش بھی ختم ہوتی جاتی ہے۔یعنی ایک شیر خوار بچہ جو ابھی تازہ تازہ ماں باپ کو پہچاننا شروع کرتا ہے وہ زیادہ اثر پذیر ہوتا ہے اس کا وجود ابھی بالکل نرم مادے کی طرح ہے پھر رفتہ رفتہ جیسے بڑا ہوتا ہےمثلا تین سال کا ہوا تو اثر پذیری آہستہ آہستہ کم ہوجاتی ہے۔کیونکہ روحانی طور پر اسکی تھوڑی سی شکل بن چکی ہوتی ہے پھر پانچ سالہ ہوا تو اثر پذیری مزید کم ہوئی پندرہ سالہ ہوا تو اور کم ہوگئی،تیس سالہ ہوا تو بیشتر کم ہوئی ساٹھ سالہ ہوا تو اور کم ہوگئی اسی سالہ ہوا اس سے بھی کمتر تا آخر البتہ پھر بھی تبدیلی کی قابلیت باقی رہتی ہے انسان اس وقت بھی توبہ کرسکتا ہے لیکن بہت زیادہ طاقت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ اب وہ نرم مادے سے کہیں زیادہ سخت اور محکم بن چکا ہوتا ہے(آہنی اور فولادی چیز کی مانند،اگر اس فولاد کو تبدیل کرنا چاہیں تو مثلا پانچ ہزار وولٹیج کی حرارت چاہیے جو اسے پگھلائی اور دوسرے سانچے میں ڈھالے کے قابل بنائے)۔
اتنی طاقت اور نیرو حاصل ہوتی ہے یا نہیں ،اسکا معاملہ خدا کے ساتھ ہے وہی بہتر جانتا ہے۔
انسان کے اندر اوصاف محکم اور مضبوط ہوجاتے ہیں ایک مرتبہ دیکھتے ہیں کسی انسان میں بری صفت مستحکم اور راسخ ہوجاتی ہے پھر ظاہر سی بات ہے اسے ختم کرنا مشکل ہوتا ہے۔یا کسی انسان میں کوئی اچھی صفت مستحکم اور راسخ ہوجاتی ہے اسے بھی ختم کرنا مشکل ہوتا ہے۔
دیکھیں! ہم کس کو عادل کہتے ہیں ؟وہ بندہ جس کے اندر تقوی کا ملکہ ہو،اسی پر اعتماد کیا جاسکتا ہے یعی وہ بندہ جس کی روح میں تقوی راسخ ہوجائے،اس کی روح تقوی کے ساتھ استحکام اور استقرار حاصل کرچکا ہو لہذا اس بندے کا منحرف ہونا بہت ہی بعید ہوتا ہے۔1
حوالہ: مطہر دل ہا،استاد شہید مطہریؒ
1۔آشنائی باقرآن،ج 8،ص 248۔251