سر ورق / مقالات / موعظہ حسنہ،استاد شہید مطہریؒ(3)

موعظہ حسنہ،استاد شہید مطہریؒ(3)

کرامت نفسی اور طبیعت کی بلندی

امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

“من کرُمت علیه نفسُه هانت علیه شھواته “

ایسا بندہ جس کا نفس اس کے لیے عزت و شرافت والا ہو اور اپنے نفس کے لیے شرافت اور کرامت کا احساس رکھتا ہو اس کی نگاہ میں خواہشات حقیر اور پست ہوجاتی ہیں۔

یعنی اگر انسان میں یہ احساس آجائے تو فورا شہوت  پرستی کو چھوڑ دے گا(امامؑ)انسان کو اپنی باطنی خودی کی جانب توجہ دلا رہے ہیں اپنی خودی پر توجہ کرو۔

تم بذات خود ایک بلند مقام رکھتے ہو وہ مقام اس سے کہیں زیادہ بلند ہے جس میں اپنے آپ کو آلودہ کرتے ہو۔

اسی طریقے سے جیسے کسی بندے کے پاس بہترین پینٹنگ ہو اسے بتایا جائے  کہ جانتے ہو یہ کونسی پینٹنگ ہے؟  یہ بہت اعلی درجے کی اور انتہائی اہم  پینٹنگ ہے!یہ افسوسناک ہوگا  کہ یہ پینٹنگ یہاں خاک آلود ہوتی رہے۔انسان جب تک اسے نہیں جانے گا تب تک اسے اہمیت نہیں دے گا لیکن جیسے ہی جان لے گا فورا اسکی حفاظت کرنے لگے گا۔

ایک دوسری حدیث امام ہادی علیہ السلام سے مروی ہے:

من ھانت علیه نفسه فلا تامن شره

اس آدمی سے ڈرو جو اپنے لیے کسی قیمت کا قائل نہیں  ہے وہ بندہ جس نے کرامت نفسی جیسے عظیم سرمائے  کا احساس ختم کردیا ہے ایسے بندے سے ڈرو جو شرافت اور کرامت کا احساس اپنے اندر محسوس نہیں کرتا ۔اسکے شر سے اپنے آپ کو محفوظ مت سمجھو۔

تحف العقول میں عقل وجہل کے بارے میں معروف حدیث ہے اس میں ذکر ہے:

لا دین لمن لا مروۃ له

جس کے اندر مردانگی اور شہامت نہیں ہے اصلا اسکا کوئی دین نہیں (مردانگی اور شہامت کی جانب دعوت دراصل اپنی خودی کی جانب دعوت ہے)

ولا مروة لمن لاعقل له

وہ بندہ جو عاقل نہیں بھلا اس کے پاس مردانگی اور شہامت کہاں سے ہوگی۔

ا ن اعظم الناس قدرا من لا یری الدنیا لنفسه خطرا(1)

سب سے زیادہ بلند مرتبہ اور عظیم القدر وہ انسان ہے جوپوری دنیا کے لیے اپنے نفس کے برابر ارزش اور قدر کا قائل ہو(البتہ توجہ رہے کہ یہ نفس پرستی نہیں ہے)

 تمام لوگوں سے عظیم القدر وہ انسان ہے اگر پوری دنیا کو ایک طرف رکھا جائے اور کرامت و عزت نفسی کو دوسری طرف رکھا جائےتو وہ اپنی خودی اور عزت نفسی کو دنیا پر ترجیح دے گا،یعنی وہ کبھی بھی آمادہ نہ ہوگا کہ بے شک اسے پوری دنیا کی نعمتیں دی جائیں اور اسے کہا جائے اپنی شرافت و کرامت پر ایک داغ لگا لو وہ اس پر بھی کبھی آمادہ نہیں ہوگا۔

حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

قدر الرجل علی قدر همته

ہر شخص کی عظمت  اور اہمیت اتنی ہی ہے جتنی اس کی ہمت بلند ہے۔

وصِدقُه علی قدر مروته

ہر شخص کی سچائی اتنی ہے جتنا اس کے اندر مردانگی اور شہامت کا احساس پایا جاتا ہے۔

 سچ میں یہ عجیب جملہ ہے!

جوبندہ اپنےاندر مردانگی اور شہامت کا احساس رکھتا ہوگا وہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولے گا ہمیشہ جھوٹ کو اپنی شان سے بہت ہی کمتر اور پست سمجھے گا۔

وعفته علی قدر غیرته(2)

یہ بھی عجیب جملہ ہے!

امور جنسی میں عفت اور پاکدامنی بھی اس کی غیرت جتنی ہے یعنی جو بندہ اپنی ناموس کی نسبت غیرتمند ہوگا وہ کسی دوسرے کی ناموس کی طرف نگاہ بھی نہیں کرے گا اور اگر ایسا کرے گا تو ایسے ہی ہے جیسے دراصل اس نے غیرت کا زیور کھو دیا ہو۔

ان تمام  میں واضح اور آشکار امام حسن مجتبی ؑ کو امیر المومنین علیہ السلام کی وصیت ہے ۔اس میں ذکر ہوا ہے:

وان ساقتک الی الرغائب

تمہارا نفس جتنا بھی شہوات او رغبتو ں کی جانب لے جانے کی کوشش کرے تم اپنے آپ کو ان پستیوں سے بلند رکھنا،

فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا

تمہارے ہاتھ سے جو چیز چلی جائے اس سے کوئی دوسری چیز حاصل کرسکتے ہولیکن اگر خود کو کھو دو گے اپنے آپ کو عیب دار کرو گے تو کبھی بھی اسکا عوض نہ پاسکو گے۔

ولاتکن عبد غیرک و قد جعلک اللہ حرا(3)

کبھی کسی کا غلام نہ بننا کیونکہ خدا نے تمہیں آزاد بنایا ہے۔

ہوسکتا ہے آپ کے ذہن میں یہ خیال  آئے اگر انسان نفس پرستی سے لڑنا چاہتا ہے تو اس صورت میں اگر کسی کا بندہ ہی بنے گا تو آزاد کے بجائے مزید نفس پرست بن جائے گا۔

عزیز من!

حقیقت ایسے نہیں ہے وہ نفس جس سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے وہ اس نفس سے ہٹ کرہے جس کی حفاظت کا حکم دیا جارہا ہے۔یہ جملہ اس علیؑ کا ہے جس کی پوری زندگی ہوا پرستی اور نفس پرستی کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے گزری ہے یہاں سے پتہ چلتا ہے وہ ہوا پرستی اور نفس پرستی جس سے لڑنے کا حکم اسلام دیتا ہے۔وہ اس سے ہٹ کر ہے جسے زندہ کرنے کا حکم اسلام دیتا ہے۔

امام صادق علیہ السلام تحف العقول کی ایک حدیث کے مطابق فرماتے ہیں:

ولاتکن فظا غلیظا یکره الناس قربک ولاتکن واهنا یُحقرک من عرفک(4)

ایسے غصہ والے اور تندخو مت بنو کہ لوگ قریب ہی نہ آئیں لیکن اتنے ہلکے اور آسان ہدف بھی نہ بنو ہر کوئی آپ کو لتاڑنا شروع کردے۔

یعنی اسلام یہ نہیں چاہتا کہ ایک مسلمان ،اپنےنفس سے جہاد کرنے کے عنوان سے اپنے آپ کو بالکل ہی پست وحقیر بنا دے یہاں تک کہ جو بھی آئے آپ کو لتاڑتا ہی چلا جائے نہ ہرگز! اپنی عزت و شرافت کا پاس رکھو ۔۔۔۔

خلاصہ:

شرافت اور کرامت نفسی کو محفوظ کرنا،اخلاق اسلامی کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے۔5

حوالہ:مطہر دل ہا، استاد شہید مطہریؒ،مترجم،استاد وسیم رضا سبحانی

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے القاب

امیرالمؤمنین، یعسوب الدین والمسلمین، مبیر الشرک والمشرکین، قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین