روز قیامت پیغمبرؐ سے رشتہ داری کا فائدہ؟
استاد شہید مطہریؒ کتاب احیائے تفکر اسلامی میں پیغمبر اسلامؐ کی حضرت فاطمہ زہراؑ کو وصیت کی تشریح میں عمل کی اہمیت کے متعلق بیان فرماتے ہیں:
ہم ایک عرصہ تقوی اور عمل کے بغیر زندگی کرتے ہیں پھر وصیت کرتے ہیں کہ ہمیں نجف(مدینہ یا کربلا) میں دفن کیا جائے تو مسئلہ حل ہے!!
اسی حوالے سے دو حدیثیں رسول خداﷺ سے بیا ن کرتا ہوں:
رسول خداﷺ نے اوائل بعثت میں جب یہ آیت نازل ہوئی:
وَ انْذِرْ عَشیرَتَک الْاقْرَبینَ
تو حضورؐ نے بنی ہاشم کو جمع کیا اور فرمایا:
اے بنی ہاشم!اے بنی عبدالمطلب! میں روز قیامت یہ نہ دیکھوں کہ دوسرے لوگ خدا کی عدالت میں عمل صالح کے ساتھ آئیں اور تم آؤ اور تمہارا کل سرمایہ مجھ سے تعلق داری ہو اور کہو کہ پیغمبر ہم سے تھے یہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گا!
اس سے اوپر بھی ایک روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے اپنی اکیلی بیٹی صدیقہ طاہرہؑ کی طرف رخ کیا جس کے متعلق فرمایا تھا:
فاطمة بِضْعَهٌ مِنّی
اور فرمایا:
یا فاطِمَهُ اعْمَلی بِنَفْسِک، انّی لااغْنی عَنْک شَیئاً
فاطمہ میری بیٹی! تم خود اپنے لیے خود عمل کرو،میں کسی چیز سے تمہیں بے نیاز نہ کرسکوں گا یعنی مجھ سے رشتہ تمہیں کوئی نفع نہ دے گی۔
میری تعلیمات کو قبول کر اور میرے دستورات پر عمل کرو مت کہنا کہ پیغمبرؐ میرے والد ہیں یہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔اپنے باپ کے حکم پر عمل کرنا ہی تمہارے لیے مفید ہوگا۔
جب آپ حضرت زہراؑ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شہزادیؑ کے ذہن میں یہ ہے ہی نہیں کہ آپ کے والد نبیؐ ہیں اور آپ نبی آخرالزمانؐ کی بیٹی ہیں۔
حدیث میں ہے جب آپ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا آپ کے بدن کا جوڑ جوڑ ہل جاتا تھا۔خوف خدا سے بہت زیادہ گریہ فرماتی تھیں۔شب جمعہ صبح تک بیدار رہتیں اور گریہ فرماتیں۔
امام علی علیہ السلام کی زندگی دیکھیں ۔مجھے نہیں معلوم ہم کیوں ایسے ہوگئے ہیں؟!
اگر قرار یہ ہو کہ یہ تعلق داری بغیر عمل کے مفید ہو اور عمل کا کوئی اثر نہ ہو تو حضرت زہراؑ تو سب سے زیادہ شائستہ تھیں اور اسی طرح امام زین العابدینؑ،امام حسنؑ ،امام حسینؑ اور خود امام علی علیہ السلام کبھی آپ رات کے اندھیرے میں خوف خدا سے غش کر جاتے تھے کیوں؟کیوں وہ نہیں سوچتے تھے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں،میں پیغمبرؐ کا داماد ہوں اور پیغمبر اسلامؐ ذاتی طور پر مجھ سے محبت کرتے تھے؟
یہ اسلام کی تعلیم تھی،اسلام جب صحیح سکھایا جاتا ہے تو اسکا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی اولاد اپنی رشتہ داری کے بجائے اپنے عمل پر بھروسہ کرتی ہے اور انکا کام یہی تھا کہ پیغمبر اسلامؐ کے دستورات پر عمل پیرا ہوں۔
حوالہ:اقتباس از کتاب احیای تفکر اسلامی،استاد شہید مطہریؒ،شفقنا