اعتراض:
صالحین اور نیک افراد کی ارواح سے استغاثہ کرنا اور ان سے مدد مانگنا انہیں ربوبیت میں شریک قرار دینا ہے اور خداوندمتعال نے اس سے نہی فرمائی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ
ترجمہ: وہ یہ حکم بھی نہیں دے سکتا کہ ملائکہ یا انبیاء کو اپنا پروردگار بنالو کیا وہ تمہیں کفر کا حکم دے سکتا ہے جب کہ تم لوگ مسلمان ہو۔
اسی طرح خداوندمتعال نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ نماز میں یہ کہیں:
ایاک نعبد و ایاک نستعین
کلمہ ایاک کا معنی صرف خدا سے استعانت اور استمداد اور مدد مانگنا ہے یعنی فقط اور فقط خداوندمتعال سے ہی مدد طلب کرو پس یامحمد اور یا علی کہنا قرآن مجید کے خلاف ہے۔
جواب:
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ جوچیز شرک کا موجب ہے وہ خداوند متعال سے مستقل اور جدا اسباب کا عقیدہ رکھنا ہے۔لیکن صالح افراد سے کے متعلق یہ عقیدہ اس طرح رکھا جاتا ہے کہ وہ صرف خداوندمتعال کی عنایات کو بندوں تک پہنچانے کاسبب ہیں اور خدا سے ہی وابستہ ہیں۔ اور یہی توحیدہے۔جیساکہ خداوندمتعال نے فرشتوں کے بعض گروہوں کو دنیا کے بعض کاموں کو چلانے کے لیے مقرر فرما رکھا ہے اور فرمایا ہے:
فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا
پھر امور کا انتظام کرنے والے ہیں
جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام لاعلاج بیماروں کو شفا دیتے تھے اور مردوں کو زندہ کرتے تھےلیکن اس کام کی خود سے نسبت دیتے تھے کہ یہ کام خدا کی قدرت اور اذن الہی سے انجام پائے ہیں۔
دوری جانب خدا نے صبر اور نماز سے استعانت مانگنے کا حکم دیا ہے:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ
ترجمہ:صبر او ر نماز کے ذریعہ مدد مانگو. نماز بہت مشکل کام ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو خشوع و خضوع والے ہیں
یہ بالکل واضح ہے کہ “صبر” خدا کے علاوہ امر ہے۔
اسی طرح ذوالقرنین کی زبان سے کہا:
فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا
ترجمہ:اب تم لوگ قوت سے میری امداد کرو کہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک روک بنادوں
ذوالقرنین نے ایسے بند کی تعمیر کے سلسلے میں بھی لوگوں سے مد طلب کی تاکہ یاجوج و ماجوج کے لشکر کو روکا جاسکے۔اور خداوندمتعال نے اسکی درخواست مسترد نہیں فرمائی۔بنابریں خدا کی مخلوقات سے استعاثہ کرنا اور ا سے مدد طلب کرنا ،توحید کے مخالف نہیں ہیں۔کیونکہ خداوند حیات،قدرت اورتوانائی میں مستقل اور دوسروں سے بے نیاز اور جدا ہے۔اسی لحاظ سے صرف وہی پرستش کے لائق ہے لیکن اولیائے خدا کی ارواح مقدس ایسے اسباب ہیں جنہیں خدا نے قدرت عطا فرمائی ہے اور وہ خدا کی اذن و اجازت سے بندگان خدا کی مدد کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں ان اولیاء خدا سے استعانت طلب کرنا عین توحید اور قرآن مجید کے موافق ہے۔
ترجمہ و پیشکش: ثقلین فاؤنڈیشن قم
حوالہ: درسنامہ نقد وہابیت،آیت اللہ سبحانی،ص202،203