سر ورق / داستان و حکایات / امام زمان ؑکے قتل میں جاسوسوں کی ناکامی

امام زمان ؑکے قتل میں جاسوسوں کی ناکامی

رشیق صاحب مادرای کہتا ہے : معتضد عباسی نے ایک شخص کو ہماری طرف بھیجا ہم تین لوگ تھے اور ہمیں حکم دیا کہ ہم ایک گھوڑے پر سوار ہوجائیں اور دوسرا گھوڑا ساتھ لے جائیں اور چپکے سے شہر سے نکل جائیں اور زین پر رکھنے والی دری کے علاوہ ہمارے ساتھ کچھ بھی نہ ہو۔ہمیں کہا گیا کہ سامرا جائیں اور ایک محلہ اور ایک گھر ہمیں معین کرکے بتا دیا گیا  اور کہا گیا کہ جب ہم گھر میں داخل ہوجائیں  تو وہاں ہمیں ایک سیاہ غلام ملے گا اسکے بعد گھر پر حملہ کردیں  اور گھر میں جو بھی سامنے آئے اسکا سر کاٹ کر میرے پاس لے آئیں۔

ہم سامرا میں داخل ہوئے اور جیسے ہمیں بتایا گیا تھا ویسے ہی ہم نے پایا۔گھر کے دالان میں ایک سیاہ غلام کوئی چیز بُننے میں مصروف تھا۔میں نے اس سے اس گھر اور اس میں رہنے والوں کے بارے میں دریافت کیا لیکن خدا کی قسم اس نے ہماری طرف توجہ بھی نہ کی گویا کہ ہم وہاں موجود ہی نہ  تھے۔پھر جیساکہ ہمارے ذمہ تھا کہ  گھر کے اندر حملہ کردیں اور ہم نے گھر کو ایک محل جیسا پایا کہ جس کے بالمقابل ایک بہترین  پردہ تھا اور ایسا خوبصورت اور قیمتی پردہ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔گویا گھر میں  اس وقت کوئی نہیں  تھا۔ہم نے پردہ ہٹایا اور دیکھا کہ ایک بہت بڑا گھر ہے گویا اس کے وسط میں ایک سمندر تھا اور دور پرے ایک دری تھی ہمیں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ پانی پر بچھی ہے اور اس پر ایک متقی انسان نماز پڑھ رہا ہے  جس نے ہمیں او ہمارے سامان  کے بارے میں نظر اٹھا کہ بھی نہ دیکھا۔

احمد بن عبداللہ آگے گیا تاکہ گھر میں داخل ہو تو وہ پانی میں گر گیا اور ہاتھ پاؤں مارنے لگا  میں نے اپنا ہاتھ اسکی جانب بڑھایا او اسے نجات دی وہ بے ہوش ہوگیا اور کچھ دیر کے لیے ایسے ہی رہا۔اسکے بعد میرے دوسرے ساتھی نے وہی عمل دہرایا او وہی مصیبت اس پر بھی آئی اور میں مبہوت ہوگیا۔

میں نے گھر والے سے کہا کہ میں خدا اور آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ خدا کی قسم مجھے اسکے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا  کہ میں کس کی جانب آیا ہوں میں خدا سے توبہ کرتا ہوں۔اس شخصیت نے میری باتوں کی طرف ذرہ برابر توجہ نہ کی اور ہم واپس آگئے۔معتضد انتظار میں تھا اور اپنے نگہبانوں کو حکم دے رکھا تھا کہ ہم جب پہنچیں ،دربار میں داخل ہوسکتے ہیں۔

رات کا کچھ پہر گزر چکا تھا کہ ہم واپس آئے اور اس نے ہم سے اس موضوع کے متعلق پوچھا اور جو ہم نے دیکھا وہ گوش گزار کردیا۔وہ کہنے لگا: وائے ہو تم پر!کیا تم مجھ سے پہلے کسی سے ملے ہو؟ ہم نے کہا :نہیں۔ تو اس نے قسم کھا کر کہا کہ اگر تم لوگوں کے علاوہ کسی کو اس اس بات کی بھنک بھی پڑی تو میں تمہاری گردن اتار دوں گا!

ہم میں جرات نہ ہوئی کہ اس کی موت تک یہ واقعہ کسی کے سامنے بیان کرسکیں۔

ترجمہ و پیشکش: ثقلی فاؤنڈیشن قم

حوالہ: الغيبة (للطوسی)  ,  ج1  ,  صفحه248

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَ حَدَّثَ عَنْ رَشِيقٍ صَاحِبِ اَلْمَادَرَايِ قَالَ: بَعَثَ إِلَيْنَا اَلْمُعْتَضِدُ وَ نَحْنُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ فَأَمَرَنَا أَنْ يَرْكَبَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا فَرَساً وَ نَجْنُبَ آخَرَ وَ نَخْرُجَ مُخِفِّينَ لاَ يَكُونُ مَعَنَا قَلِيلٌ وَ لاَ كَثِيرٌ إِلاَّ عَلَى اَلسَّرْجِ مُصَلىًّ وَ قَالَ لَنَا اِلْحَقُوا بِسَامِرَّةَ وَ وَصَفَ لَنَا مَحَلَّةً وَ دَاراً وَ قَالَ إِذَا أَتَيْتُمُوهَا تَجِدُونَ عَلَى اَلْبَابِ خَادِماً أَسْوَدَ فَاكْبِسُوا اَلدَّارَ وَ مَنْ رَأَيْتُمْ فِيهَا فَأْتُونِي بِرَأْسِهِ. فَوَافَيْنَا سَامِرَّةَ فَوَجَدْنَا اَلْأَمْرَ كَمَا وَصَفَهُ وَ فِي اَلدِّهْلِيزِ خَادِمٌ أَسْوَدُ وَ فِي يَدِهِ تِكَّةٌ يَنْسِجُهَا فَسَأَلْنَاهُ عَنِ اَلدَّارِ وَ مَنْ فِيهَا فَقَالَ صَاحِبُهَا فَوَ اَللَّهِ مَا اِلْتَفَتَ إِلَيْنَا وَ قَلَّ اِكْتِرَاثُهُ بِنَا فَكَبَسْنَا اَلدَّارَ كَمَا أَمَرَنَا فَوَجَدْنَا دَاراً سَرِيَّةً وَ مُقَابِلُ اَلدَّارِ سِتْرٌ مَا نَظَرْتُ قَطُّ إِلَى أَنْبَلَ مِنْهُ كَأَنَّ اَلْأَيْدِيَ رُفِعَتْ عَنْهُ فِي ذَلِكَ اَلْوَقْتِ وَ لَمْ يَكُنْ فِي اَلدَّارِ أَحَدٌ. فَرَفَعْنَا اَلسِّتْرَ فَإِذَا بَيْتٌ كَبِيرٌ كَأَنَّ بَحْراً فِيهِ مَاءٌ وَ فِي أَقْصَى اَلْبَيْتِ حَصِيرٌ قَدْ عَلِمْنَا أَنَّهُ عَلَى اَلْمَاءِ وَ فَوْقَهُ رَجُلٌ مِنْ أَحْسَنِ اَلنَّاسِ هَيْئَةً قَائِمٌ يُصَلِّي فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْنَا وَ لاَ إِلَى شَيْءٍ مِنْ أَسْبَابِنَا فَسَبَقَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ لِيَتَخَطَّى اَلْبَيْتَ فَغَرِقَ فِي اَلْمَاءِ وَ مَا زَالَ يَضْطَرِبُ حَتَّى مَدَدْتُ يَدِي إِلَيْهِ فَخَلَّصْتُهُ وَ أَخْرَجْتُهُ وَ غُشِيَ عَلَيْهِ وَ بَقِيَ سَاعَةً وَ عَادَ صَاحِبِيَ اَلثَّانِي إِلَى فِعْلِ ذَلِكَ اَلْفِعْلِ فَنَالَهُ مِثْلُ ذَلِكَ وَ بَقِيتُ مَبْهُوتاً. فَقُلْتُ لِصَاحِبِ اَلْبَيْتِ اَلْمَعْذِرَةُ إِلَى اَللَّهِ وَ إِلَيْكَ فَوَ اَللَّهِ مَا عَلِمْتُ كَيْفَ اَلْخَبَرُ وَ لاَ إِلَى مَنْ أَجِيءُ وَ أَنَا تَائِبٌ إِلَى اَللَّهِ. فَمَا اِلْتَفَتَ إِلَى شَيْءٍ مِمَّا قُلْنَا وَ مَا اِنْفَتَلَ عَمَّا كَانَ فِيهِ فَهَالَنَا ذَلِكَ وَ اِنْصَرَفْنَا عَنْهُ وَ قَدْ كَانَ اَلْمُعْتَضِدُ يَنْتَظِرُنَا وَ قَدْ تَقَدَّمَ إِلَى اَلْحُجَّابِ إِذَا وَافَيْنَاهُ أَنْ نَدْخُلَ عَلَيْهِ فِي أَيِّ وَقْتٍ كَانَ. فَوَافَيْنَاهُ فِي بَعْضِ اَللَّيْلِ فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ فَسَأَلَنَا عَنِ اَلْخَبَرِ فَحَكَيْنَا لَهُ مَا رَأَيْنَا فَقَالَ وَيْحَكُمْ لَقِيَكُمْ أَحَدٌ قَبْلِي وَ جَرَى مِنْكُمْ إِلَى أَحَدٍ سَبَبٌ أَوْ قَوْلٌ قُلْنَا لاَ فَقَالَ أَنَا نَفِيٌّ مِنْ جَدِّي وَ حَلَفَ بِأَشَدِّ أَيْمَانٍ لَهُ أَنَّهُ رَجُلٌ إِنْ بَلَغَهُ هَذَا اَلْخَبَرُ لَيَضْرِبَنَّ أَعْنَاقَنَا فَمَا جَسَرْنَا أَنْ نُحَدِّثَ بِهِ إِلاَّ بَعْدَ مَوْتِهِ .

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

 حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب کی شجاعت

میں نے دیکھا حسان  نےتو صاف جواب دیدیا ہے۔میں نے خود کمر ہمت باندھی اور قلعہ سے باہر نکلی اور ایک خیمے کی لکڑی سے اس پر حملہ آور ہوئی.