ایران اور سعودی عرب نے تعلقات بحال کرنے اور سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کرلیا ہے۔چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سعودی عرب، ایران اور چین کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق تہران اور ریاض نے اتفاق کرلیا ہے کہ آپس میں سفارتی تعلقات اور اپنے سفارت خانے اور مشنز دو مہینوں سے پہلے بحال کردیں گے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے حالیہ دورے کے بعد سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل (ایس این ایس سی) کے سیکریٹری نے چین کا دورہ کیا تاکہ چین اور سعودی عرب کے درمیان مسائل حل کرنے کے لے سعودی وفد کے ساتھ وسیع مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
ایرانی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری اور سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان کئی دنوں کے وسیع مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے تعلقات کی بحالی کا معاہدہ طے کرلیا۔دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ طے پانے کے دوران باضابطہ ایک تقریب میں ایران، سعودی عرب اور چین کے درمیان ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔
اس بیانیه میں اهم بات یہ ہے کہ خودمختاری کے احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیتے ہوئے دونوں ممالک نے 17 اپریل 2001 کو طے پانے والے سیکیورٹی تعاون کے معاہدے پر عمل درآمد پر اتفاق کر لیا ہے۔
اسی طرح دونوں ممالک نے 27 مئی 1998 کو طے پاگئے عام معاہدے پر بھی اتفاق کرلیا ہے، جس کا مقصد اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری، تکنیکی، سائنسی، ثقافتی، کھیلوں اور نوجوانوں کے امور میں تعلقات کو فروغ دینا تھا۔
مشترکہ بیان میں تینوں ممالک نے علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ہر کوشش بروئے کار لانے پر زور دیا۔
ٹوئٹر پر جاری بیان میں ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ پڑوسیوں کے حوالے سے ایرانی حکومتوں کی خارجہ پالیسی اہم ہے اور درست سمت میں مضبوطی سے آگے بڑھ رہی ہے اور سفارتی حربے مزید علاقائی اقدامات کی تیاری کے پیچھے متحرک ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ معاہدہ تاریخ میں ایک اسٹراٹیجک سونامی سے پکارا جائے گا کیونکہ 80 سالوں پر مشتمل امریکہ اور یورپ کا بت ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے اور چین تیزی سے اوپر آیا ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب کے لیے بھی یہ معاہدہ مفید رہا ہے کیونکہ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اربوں پیٹروڈالرز ایران کے مقابلے کے لیے خرچ کررہا ہے ایک امکانی فتح کی خاطر اتنا خرچ کیا جارہا ہے لیکن مفید نہیں ہے اب ا س معاہدے سے سعودی عرب اپنی ملک میں رفاہی منصوبوں پر لگائے گا۔
اسی طرح یورپ اور امریکہ و اسرائیل نے دنیائے عرب کو ایران فوبیا میں مبتلا کرکے اربوں ڈالرز کا اسلحہ فروخت کیا اب اس میں کمی آئے گی۔اور اسرائیل کی حمایت میں آنے والے عرب ممالک کو یہ سمجھ آگئی ہے کہ اب اپنے معاملات خود ہی حل کرنے ہیں جس سے عرب اسرائیل اتحاد منصوبہ بھی ناکام ہوتا نظر آرہا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اب بعید نہیں کہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک ایران کی فوجی اور دفاعی تجربوں سے فائدہ اٹھائیں گے اور یہ پیسہ اسی خطے میں خرچ ہوگا۔ اور اس وجہ سے خلیج فارس کا علاقہ بھی محفوظ ہوجائے گا۔
اگر سعودی عرب بریکس میں شامل ہوجاتا ہے تو اسے اسرائیلی اور امریکی کی اسلحے کی ضرورت بھی نہ ہوگی کیونکہ خطہ امن کی جانب جائے گا۔
اگر کہا جائے کہ ایران اور سعودی دونوں اس امن ماہدے کے شدید خواہشمند تھے تو بعید نہیں ہوگا تاکہ پراکسی جنگوں کا رخ کسی دوسری جانب موڑا جاسکے۔
لازم یہ ہے کہ دونوں ممالک اس معاہدے کی کتنی پاسداری کرتے ہیں؟ تاکہ اسکے ثمرات سامنے آنا شروع ہوں۔اس معاہدے کا ایک فائدہ ایران کے لیے یہ سامنے آیا ہے کہ خلیج فارس کے ممالک میں بینکوں کا نظام اب ایران سے اپ گریڈ ہوچکا ہے اور ایران عالمی تنہائی سے فی الوقت باہر نکل آیا ہے۔
حوالہ: ثقلین میڈیا،قم