سر ورق / مقالات / گناہوں کا اعتراف قربت الہی کا سبب

گناہوں کا اعتراف قربت الہی کا سبب

فراز سوم

خدا  چاہتا ہے کہ اسکے  بندے  اپنے گناہوں کا اعتراف کریں۔یہ اعتراف خدا کے لیے کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔بندہ خواہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرے یا نہ کرے خدا کے مُلک وجبروت  میں نہ کسی چیز کی کمی ہوگی نہ ہی اضافہ۔لیکن خدا پسند کرتا ہے کہ بندہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے گناہوں کی ذلت و خواری سے خود آگاہی پیدا کرے اور خدا کے عفو و درگزر کا زیادہ احساس کرے۔

درحقیقت انسان اپنی سبکی و ذلت  اور حقارت کا اعتراف کرنے سے عفو پروردگار کی لذت کا زیادہ لطف لیتا ہے۔انسان جب تک اپنی پستی کو خود نہیں سمجھتا تب تک عفو پروردگار کاذائقہ  نہیں چکھ سکتاکیونکہ انسان جتنا اپنے گناہوں کی طرف توجہ کرے گا اور اپنی پستی کا ادراک کرے گا اتنا خدا کی مغفرت اسے لذت بخش  محسوس ہوگی۔اور خدا کی رحمت کا زیادہ احساس کرسکے گا۔

بعض دعاؤں میں مختلف عبارتیں آئی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ رحمت پروردگار کو جوش دلاتی ہیں نہ کہ انسان خدا پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ انسان خود ایک حالت پیدا کرتا ہے جس کی وجہ رحمت الہی کا مستحق قرار پاتا ہے۔مثلا ایک دعامیں ہے  خدایا! تو کیسے اس بندے پر عذاب کرے گا  جس پر تونے اتنا لطف و کرم کیا ہے؟!اسکی پیدائش سے پہلے اس کے لیے اسباب فراہم کیے اسے مختلف نعمتوں میں پالا اور جب وہ نافرمانی کررہا ہوتا توعفو و بخشش کی نوید اسے سنائی اور اسے توبہ استغفار کی طرف دعوت دی تاکہ وہ تیری رحمت و لطف کا امیدوار رہے۔اسے دعوت دی اور اس کے دل میں اپنی محبت ڈال دی یہاں تک کہ وہ عبادتگاہ کی طرف لپک کر آتا تیری رحمت کی طرف نظر رہتی اور تیرے خوف سے گریہ کررہا ہوتا۔!

یہ دعائیں حقیقت میں انسان کو خدا کی جانب متوجہ کرتی ہیں  اور انسان میں رحمت الہی کے استحقاق کی لیاقت  پیدا کرتی ہیں اور دوسری تعبیر میں رحمت خدا کو جوش دلاتا ہے۔

بنابریں  شائسته یهی ہے کہ کبھی موقع ملے تو انسان اپنے گناہوں کو شمار کرے اور خدا کےلطف و کرم کے بحر بیکراں کی جانب توجہ کرے اس سے یاد آجائے گا آغاز عمر سے لیکر اب تک کتنے گناہ کیے ہیں اور کتنی بار مرضی خدا کی مخالفت کی ہے۔ اور ایسے گناہ کسی ایک  پراسے  کئی سالوں تک عذاب  جھیلنا پڑتا۔لیکن خدا نے اسے نظرانداز کیا  اور ہمیشہ اپنی رحمت کا سایہ اس پراوڑھائے رکھا۔

یہ اعتراف باعث بنتے ہیں کہ خدا کی رحمت کا مستحق قرار پائے کیونکہ انسان اپنی بےچارگی کو جتنا زیادہ احساس کرے گا خدا کے سامنے اتنا زیادہ جھکے گا اور خدا لطف و فضل کا زیادہ مستحق قرار پائے گا۔

خدایا! میں اپنے فقر اور بےچارگی کا اعتراف کرتے ہوئے تیری درگاہ میں متوسل ہوا ہوں!

جوچیز ہمارے اور خدا کے درمیان حائل ہے وہ ہمارا غرور اور انانیت ہے اگر انسان ان پردوں کو چاک کردے جیسا ہے ویسا ہی خود کو دیکھے تو اپنے فقر اور بے چارگی سے واقف ہوگا اور خدا کی رحمت کا مشمول واقع ہوگا اور خدا کی نعمتوں سے زیادہ مستفید ہوگا۔

قرآن مجید میں ہے جب حضرت یونس نبی ؑ نے اپنی خطا کا اعتراف کیا تو خدا کی رحمت  و لطف ان کے شامل حال ہوا۔

پس انسان خدا کی بارگاہ  میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرے  اس سے خدا کوکوئی فائدہ نہیں۔ہم عبادت کریں یا گناہ کریں خدا کو نہ کوئی فائدہ ہے نہ ہی نقصان۔ہاں اگر ہم عبادت کریں تو خدا کے فیض سے ہمارے ایمان و معرفت میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ موجب بنتا ہے کہ ہم روحانی حالت اختیار کرلیں ۔یہی جو ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کررہے ہیں یہ بھی خدا کا فضل ہے اور اسکا لطف ہے۔

حوالہ: کتاب بر درگاہ دوست،آیت اللہ مصباح یزدی رح

ترجمہ و تلخیص و پیشکش: ثقلین فاؤنڈیشن قم

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

ثانی زہراء علیہا السلام،عقل کے کمال کی بہترین مثال

حضرت زینب علیہا السلام کا یہ کلام توحید کے اعلی ترین مراتب اور بندگی اور عبودیت میں قرب خدا  پر دلالت کرتاہے۔معشوق کی نسبت عاشق کے انتہائی ادب  پر دلیل ہے۔