سر ورق / مقالات / انسان سے سلب توفیق کے دلائل

انسان سے سلب توفیق کے دلائل

فراز چہارم

امام سجاد علیہ السلام دعائے ابوحمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں:

اے معبود! جب بھی میں کہتا ہوں کہ میں آمادہ و تیار ہوں اور تیرے حضور نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور تجھ سے مناجات کرتا ہوں تو مجھے اونگھ آلیتی ہے جب کہ میں نماز میں ہوتا ہوں اور جب میں تجھ سے راز و نیاز کرنے لگوں تو اس حال میں بر قرار نہیں رہتا !مجھے کیا ہوگیاہے؟ میں کہتا ہوں کہ میرا باطن صاف ہے میں توبہ کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھتا ہوں ایسے میں کوئی آفت آپڑتی ہے جس سے میرے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور میرے اور تیری حضوری کے درمیان کوئی چیز آڑ بن جاتی ہے۔میرے سردار ! شاید کہ تو نے مجھے اپنی بارگاہ سے ہٹا دیا ہے اور اپنی خدمت سے دور کر دیا ہے یا شاید تو دیکھتا ہے کہ میں تیرے حق کو سبک سمجھتا ہوں پس مجھے ایک طرف کردیا یا شاید تو نے دیکھا کہ میں تجھ سے روگرداں ہوں تو مجھے برا سمجھ لیا یا شاید تو نے دیکھا کہ میں جھوٹوں میں سے ہوں تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا یا شاید تو دیکھتا ہے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا تو مجھے محروم کر دیا یا شاید کہ تو نے مجھے علماءکی مجالس میں نہیں پایا تو اس بنا پر مجھے ذلیل کر دیا ہے یا شاید تو نے مجھے غافل دیکھا تو اس پر مجھے اپنی رحمت سے مایوس کردیا ہے یا شاید تو نے مجھے بے کار باتیں کرنے والوں میں دیکھا تو مجھے انہیں میں رہنے دیا یا شاید تو میری دعا کو سننا پسند نہیں کیا تو مجھے دورکر دیا یا شاید تو نے مجھے میرے جرم اور گناہ کا بدلہ دیا ہے۔

اس فراز میں غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ جب بھی ہم چاہیں خدا سے دعا اور مناجات اور اسکی عبادت کرنے لگ جائیں۔ تجربہ بھی گواہ ہے کہ ایسے حالات مکمل طور پر انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے کبھی انسان چاہتا ہے کہ دعا اور نماز کے لیے حالت پیدا ہو لیکن دیکھتا ہے کسی دوسرے حال میں ہے اور بھول جاتا ہے کہ وہ دعا ونماز کی حالت میں ہے  ان جملات سے معلوم ہوتا ہے  کہ سابقہ اعمال ایسے حالات اور توفیقات  سلب ہونے کی وجہ ہیں۔

انسان دن رات  بیہودہ کاموں میں گزارتا ہے اور نماز و مناجات کی طرف بھرپور توجہ نہیں کرپاتا اور باطل خیالات سے اپنے ذہن کو محفوظ نہیں رکھ پاتا ۔برے اعمال انجام دینے والوں کے پاس بیٹھتا ہے یا لغو اور بےہودہ باتیں کرنے والوں کی محفل میں شریک ہوتا تو ایسے اعمال باعث بنتے ہیں کہ انسان کی روح میں اثر انداز ہوں اور دعا اور مناجات  کی توفیق سلب ہوجائے۔علماء اور خدا کے نیک بندوں سے دوری،  اسی طرح گناہوں کا ارتکاب انسان سے عبادت  کی توفیق سلب کرلیتی ہیں۔بعض روایات میں آیا ہے کہ کبھی خدا اپنے بندے کو معصیت کی وجہ سے تہجد اور نماز شب کی توفیق سے محروم کردیتا ہے۔ اور یہ ایسے گناہ کی سزا ہے جسے وہ ہرروز انجام دیتا ہے۔

بنابریں اگر انسان چاہتا ہے کہ اسے ایک باحال اور لذت بخش دعا ،حضور قلب کے ساتھ نماز اور تلاوت قرآن کی توفیق ملے تو جلد از جلد اسے چاہیے کہ ان کے مقدمات فراہم کرے۔اگر پہلے سے آمادگی نہ ہو تو نماز اور دعا کے دوران لذت بخش حالت حاصل نہ کرسکے گا۔

دعائے ابو حمزہ ثمالی کے یہ جملات ہمیں سیکھاتے ہیں کہ ہم مکمل طور پر اپنی حفاظت کریں تاکہ کوئی ایسا نامناسب کام انجام نہ دینے پائیں جس سے دعا و نماز اور حضور قلب کی توفیق ہم سے سلب ہوجائے۔اگر کوئی چاہتا ہے کہ نماز تہجد کی توفیق پالے تو اسے چاہیے دن میں اپنے کردار اور گفتار کا خاص خیال رکھے۔اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں کی حفاظت کرے تاکہ جو چیز  قابل سماعت اور قابل رؤیت نہ ہو اسکی جانب متوجہ نہ ہوں۔اپنے دل میں باطل خیال نہ آنے دے۔فضول اور بے ہودہ خیالات کو اپنی  قوۃ مخیلہ میں داخل ہونے سے روکے کیونکہ یہ سب امور حضور قلب میں مانع اور رکاوٹ ہیں۔

حوالہ: کتاب بر درگاہ دوست،آیت اللہ مصباح یزدی رح

ترجمہ و تلخیص و پیشکش: ثقلین فاؤنڈیشن قم

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

ثانی زہراء علیہا السلام،عقل کے کمال کی بہترین مثال

حضرت زینب علیہا السلام کا یہ کلام توحید کے اعلی ترین مراتب اور بندگی اور عبودیت میں قرب خدا  پر دلالت کرتاہے۔معشوق کی نسبت عاشق کے انتہائی ادب  پر دلیل ہے۔