سر ورق / مقالات / محبت خدا کے حصول کی راہ

محبت خدا کے حصول کی راہ

فراز ششم

الف: خدا کی نعمتوں کی جانب توجہ:

محبت خدا کا حصول موجب بنتا ہے کہ انسان خدا کے دستور اور حکم سے سرپیچی نہ کرے۔ہم کیاکریں کہ ایسی محبت خدا ہمارے دل میں پیدا ہوجائے کہ اگر کوئی مصیبت ہم پر ٹوٹ پڑے تب بھی ہم پروردگار سے دور نہ ہوں؟ کیا کریں کہ ہم خدا سے اس طرح امیدوار ہوں  کہ جب ہمیں دوزخ میں لے جائے تب بھی ہمارے دل میں اسکی رحمت کی امید موجود ہو؟

یہ حالات آخرت میں حاصل نہیں کیے جاسکتے بلکہ ان حالات اور صفات کے حصول کا مقام یہی دنیا ہے۔یہ حالات اسی دنیا میں جلوہ کرتے ہیں۔

خدا کی محبت کا حصول اور اس کی ذات سے امید رکھنے کا راستہ کیا ہے؟

اسی دعائے ابوحمزہ ثمالی میں امام سجادؑ فرماتے ہیں کہ اگر میرے دل سے تیری محبت باہر نہیں نکلتی تو اسکی دلیل یہ ہے کہ میں اپنے اوپر نازل ہونے والی نعمتوں کو نہیں بھلا پایا!میرے گناہوں کی تونے پردہ پوشی کی ہے وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گی ۔یہا ں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر چاہتا ہے کہ اسکے دل میں محبت خدا پائیدار ہو تو ہمیشہ  یادخدا اور اسکی فراواں نعمتوں کو یاد رکھے۔

نبی مکرمؐ فرماتے ہیں:

خدا سے محبت کرو کہ وہی تمہیں اپنی نعمتوں سے غذا دیتا ہے۔

حدیث قدسی میں ہے کہ حضڑت موسی ؑ سے خطاب ہوا کہ اے موسی! مجھے مخلوق کے سامنے محبوب بناؤ!حضرت موسیؑ نے عرض کیا خدایا!کیسے؟خطاب ہوا :میری نعمتیں انہیں یاد دلاؤ!

جب انسان جا ن لے کہ کوئی اس پر لطف کررہا ہے تو فطری طور پر اس سے محبت کرنے لگتا ہے خاص کر جب کسی مصیبت میں گھِر جائے اور لاچارہو تو اس موقع پر اگر کوئی آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھام لے تو وہ زندگی بھر اسکا ممنون احسان رہتا ہے اور اس سے اس کے دل میں محبت آجاتی ہے۔

پس ہم اگر خدا سے محبت کرنا چاہتے یں تو  ضروری ہے اسکی ایک ایک نعمت کو یاد کریں۔خدا کی نعمات اتنی زیادہ ہیں اور ہم اس میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ انکے وجود کا ادراک ہی نہیں ہورہا۔ا ن کی قدر وقیمت سے ہم آگاہ نہیں ہیں لیکن جیسے ہی ہم پر سختی آتی ہے یا کوئی نعمت ہم سے چھن جاتی ہے تو اس وقت ہم متوجہ ہوتے ہیں  ہم کیسی نعمت کے مالک تھے لیکن اس کی قدر نہیں کی۔

 دعائے جوشن صغیر بدخواہوں اور دشمنوں کی دشمنی کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ  خداوندمتعال نے ہمیں ان سے کیسے محفوظ رکھا؟

میرے معبود وہ دشمن جس نے مجھ پر عداوت کی تلوار کھینچ لی اور میرے لیے اپنے خنجر کی دھار تیز کر لی اور اس کی تیز نوک میری طرف کر لی اور زہر ہائے قاتل میرے لیے مہیا کرلیے اور اپنے تیروں کے نشانے مجھ پر باندھ  لیے اور اس کی آنکھ میری طرف سے جھپکتی نہیں اور اس نے مجھے تکلیف دینے کی ٹھان لی،

اور مجھے زہر کے گھونٹ پلانے پر آمادہ ہے لیکن تو ہی تھا جس نے بڑی سختیوں کے مقابل میری کمزوری اور مجھ سے مقابلہ کرنے کا قصد رکھنے والوں کے سامنےمیری ناطاقتی اور مجھ پر یورش کرنے والوں کے درمیان میری تنہائی کو دیکھا جو مجھے ایسی تکلیف دینا چاہتے ہیں جس کا سامنا کرنے کا میں نے سوچا بھی نہ تھا۔

پس تو نے  اپنی قدرت سے میری حمایت کی اور اپنی نصرت سے مجھے سہارا دیا۔

پھر  فرمایا کہ اے خدا! مجھے نعمتوں کا شکرگزار اور اپنے احسانات کو یاد رکھنے والا قرار دے۔

ب: خدا کی عیب پوشی کی طرف توجہ:

دوسروں کی نظروں سے دور جو گناہ ہم نے کیے ہیں اور خدا نے اس کا انتظام کررکھا ہے کہ لوگ ان کی جانب متوجہ نہ ہوں تاکہ ہم رسوا نہ ہوں۔ یہ بھی خدا کی ظیم نعمتوں میں سے ایک ہے جو خدا نے انسان کو عطا فرمائی ہے۔کبھی خلوت میں انسان برا کام انجام دیتا ہے لیکن خدا اس گناہ پر پردہ ڈال دیتا ہے اور دوسروں کو خبر نہیں ہونے دیتا۔اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا ہوتا تو انسان کبھی دوسروں کے سامنے نہ آسکتا۔لہذا امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:

 خدایا !جو نعمتیں تونے عطا کی ہیں اور جو تونے اس دنیا میں میری جو عیب پوشی کی ہے وہ میں فراموش نہیں کروں گا۔

پس محبت خدا میں اضافے اور اسکی رحمت و عفو  سے زیادہ امیدوار ہونے کے لیے ایسا نظام اوقات بنائیں جس میں روزانہ کچھ دیر کے لیے خدا کی نعمتوں میں تفکر اور ان کی یادآوری کے لیے صرف کریں۔محبت خدا اور خوف و رجا ایسے ہی نہیں آجائیں گے بلکہ اس کے لیے ہمیں کوشش کرنا ہوگی۔

حوالہ: کتاب بر درگاہ دوست،آیت اللہ مصباح یزدی رح

ترجمہ و تلخیص و پیشکش: ثقلین فاؤنڈیشن قم

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

زیارت حضرت معصومہ(ع)کیسے پڑھی جائے؟

خود شہزادی معصومہؑ کی معرفت ہے کہ خدا کے  نزدیک آپ کی ایک شان ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو مقام شفاعت ملا ہے جس کی معصوم کی زبان نے تائید فرمائی ہے۔