سر ورق / مقالات / معصومین / حضرت امام محمد تقیؑ / اصول کافی سے امام جواد علیہ السلام کے متعلق منتخب فرامین(3)

اصول کافی سے امام جواد علیہ السلام کے متعلق منتخب فرامین(3)

بَابُ الْإِشَارَةِ وَ النَّصِّ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي ع‏

11- الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ مُعَمَّرِ بْنِ خَلَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ إِسْمَاعِيلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ لِلرِّضَا ع إِنَّ ابْنِي فِي لِسَانِهِ ثِقْلٌ فَأَنَا أَبْعَثُ بِهِ إِلَيْكَ غَداً تَمْسَحُ عَلَى رَأْسِهِ وَ تَدْعُو لَهُ فَإِنَّهُ مَوْلَاكَ فَقَالَ هُوَ مَوْلَى أَبِي جَعْفَرٍ فَابْعَثْ بِهِ غَداً إِلَيْهِ.

 11۔ راوی کہتا ہے میں نے سنا کہ ابراہیم بن اسماعیل نے  امام رضا (ع) سے کہا  میرے  بیٹے کی زبان میں  لکنت ہے کل میں اسے آپ کے  پاس بھیجوں  گا آپ اس کے سر پر ہاتھ پھیریں  اور دعا کریں  وہ آپ کا غلام ہے۔  فرمایا: وہ ابو جعفر  کا غلام ہے  کل انہیں کےپاس بھیجنا ۔

12- الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ النَّهْدِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَلَّادٍ الصَّيْقَلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ جَالِساً بِالْمَدِينَةِ وَ كُنْتُ أَقَمْتُ عِنْدَهُ سَنَتَيْنِ أَكْتُبُ عَنْهُ مَا يَسْمَعُ مِنْ أَخِيهِ يَعْنِي أَبَا الْحَسَنِ ع إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الرِّضَا ع الْمَسْجِدَ- مَسْجِدَ الرَّسُولِ ص فَوَثَبَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ بِلَا حِذَاءٍ وَ لَا رِدَاءٍ فَقَبَّلَ يَدَهُ وَ عَظَّمَهُ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ ع يَا عَمِّ اجْلِسْ رَحِمَكَ اللَّهُ فَقَالَ يَا سَيِّدِي كَيْفَ أَجْلِسُ وَ أَنْتَ قَائِمٌ فَلَمَّا رَجَعَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ إِلَى مَجْلِسِهِ جَعَلَ أَصْحَابُهُ يُوَبِّخُونَهُ وَ يَقُولُونَ أَنْتَ عَمُّ أَبِيهِ وَ أَنْتَ تَفْعَلُ بِهِ هَذَا الْفِعْلَ فَقَالَ اسْكُتُوا إِذَا كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ لَمْ يُؤَهِّلْ هَذِهِ الشَّيْبَةَ وَ أَهَّلَ هَذَا الْفَتَى وَ وَضَعَهُ حَيْثُ وَضَعَهُ أُنْكِرُ فَضْلَهُ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِمَّا تَقُولُونَ بَلْ أَنَا لَهُ عَبْدٌ.

 12۔ راوی کہتا  ہے میں علی بن جعفر محمد  (ع) کےپاس مدینہ میں بیٹھا تھا اور میں ان کے پاس دو سال سے قیام کئے ہوئے تھا جو کچھ وہ اپنے بھائی امام موسی کاظم (ع) سے سنا ہوا ہوتا، بیان کرتے تھے میں اس کو لکھتا جاتا تھا ،ناگاہ امام محمد تقی (ع) تشریف لائے مسجد رسولؐ میں ۔ پس علی بن جعفر بغیر جوتوں کے آئے  اور رکے ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور تعظیم کی۔ امام محمد تقی (ع) نے فرمایا اے چچا بیٹھے اللہ آپ پر رحم کرے ۔ فرمایا اے میرے سرادر! میں کیسے بیٹھوں ، در آنحا لیکہ آپ کھڑے ہیں جب علی ابن جعفر اپنے مقام  پر آئے تو ان کے یاروں نے یہ کہہ کر جھڑکا کہ وہ آپ کے باپ کے چچا ہیں آپ ان کے ساتھ ایسا بزرگوں کا سا برتاؤ  کرتے ہیں،  انھوں نے کہا چپ ہو جاؤ جبکہ اللہ عزوجل اتنا کہہ کر اپنی داڑھی کو یکڑا میری یہ سفید داڑھی قابل عظمت ہو اور یہ جوان   نہ ہو  میں اس کو قابل عظمت جانتا ہوں  خدا نے انہیں جس مقام پر رکھا ہے میں ان کی فضیلت کا کیسے  انکار کروں؟!  جو کچھ تم کہتے  ہو میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں میں تو ان کا غلام ہوں ۔

13- الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْخَيْرَانِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنْتُ وَاقِفاً بَيْنَ يَدَيْ أَبِي الْحَسَنِ ع- بِخُرَاسَانَ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ يَا سَيِّدِي إِنْ كَانَ كَوْنٌ فَإِلَى مَنْ قَالَ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ ابْنِي فَكَأَنَّ الْقَائِلَ اسْتَصْغَرَ سِنَّ أَبِي جَعْفَرٍ ع فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بَعَثَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولًا نَبِيّاً صَاحِبَ شَرِيعَةٍ مُبْتَدَأَةٍ فِي أَصْغَرَ مِنَ السِّنِّ الَّذِي فِيهِ أَبُو جَعْفَرٍ ع.

 13۔ راوی نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ  میں خراسان میں امام رضا (ع) کی خدمت میں  حاضر  تھا  کہ ایک شخص نے آکر کہا اگر آپ کی موت کا حادثہ ہوجائے آپ کے بعد امام  کون ہوگا  حضرت نے فرمایا  میرا بیٹا ابو جعفر ۔ یہ کہنے والا شخص امام محمد تقی (ع)  کم سنی کو عدم امامت کی دلیل جانتا تھا ۔ امام رضاع نے فرمایا  اللہ تعالی نے  ایسے سن میں عیسیٰ ابن مریم کو  رسول نبیؐ اور صاحب شریعت بناکر  بھیجا وہ  سن میں ابو جعفر (ع) سے  بھی کم تھے ۔

14- عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ جَمِيعاً عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ يَحْيَى بْنِ النُّعْمَانِ الصَّيْرَفِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ جَعْفَرٍ يُحَدِّثُ الْحَسَنَ بْنَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَالَ: وَ اللَّهِ لَقَدْ نَصَرَ اللَّهُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا ع فَقَالَ لَهُ الْحَسَنُ إِي وَ اللَّهِ جُعِلْتُ فِدَاكَ لَقَدْ بَغَى عَلَيْهِ إِخْوَتُهُ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ إِي وَ اللَّهِ وَ نَحْنُ عُمُومَتُهُ بَغَيْنَا عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ الْحَسَنُ جُعِلْتُ فِدَاكَ كَيْفَ صَنَعْتُمْ فَإِنِّي لَمْ أَحْضُرْكُمْ قَالَ قَالَ لَهُ إِخْوَتُهُ وَ نَحْنُ أَيْضاً مَا كَانَ فِينَا إِمَامٌ قَطُّ حَائِلَ اللَّوْنِ‏  فَقَالَ لَهُمُ الرِّضَا ع هُوَ ابْنِي قَالُوا فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَدْ قَضَى بِالْقَافَةِ فَبَيْنَنَا وَ بَيْنَكَ الْقَافَةُ  قَالَ ابْعَثُوا أَنْتُمْ إِلَيْهِمْ فَأَمَّا أَنَا فَلَا وَ لَا تُعْلِمُوهُمْ لِمَا دَعَوْتُمُوهُمْ وَ لْتَكُونُوا فِي بُيُوتِكُمْ فَلَمَّا جَاءُوا أَقْعَدُونَا فِي الْبُسْتَانِ وَ اصْطَفَّ عُمُومَتُهُ وَ إِخْوَتُهُ وَ أَخَوَاتُهُ وَ أَخَذُوا الرِّضَا ع وَ أَلْبَسُوهُ جُبَّةَ صُوفٍ وَ قَلَنْسُوَةً مِنْهَا وَ وَضَعُوا عَلَى عُنُقِهِ مِسْحَاةً وَ قَالُوا لَهُ ادْخُلِ الْبُسْتَانَ كَأَنَّكَ تَعْمَلُ فِيهِ ثُمَّ جَاءُوا بِأَبِي جَعْفَرٍ ع فَقَالُوا أَلْحِقُوا هَذَا الْغُلَامَ بِأَبِيهِ فَقَالُوا لَيْسَ لَهُ هَاهُنَا أَبٌ وَ لَكِنَّ هَذَا عَمُّ أَبِيهِ وَ هَذَا عَمُّ أَبِيهِ وَ هَذَا عَمُّهُ وَ هَذِهِ عَمَّتُهُ وَ إِنْ يَكُنْ لَهُ هَاهُنَا أَبٌ فَهُوَ صَاحِبُ الْبُسْتَانِ فَإِنَّ قَدَمَيْهِ وَ قَدَمَيْهِ وَاحِدَةٌ فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو الْحَسَنِ ع قَالُوا هَذَا أَبُوهُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ فَقُمْتُ فَمَصَصْتُ رِيقَ‏  أَبِي جَعْفَرٍ ع ثُمَّ قُلْتُ لَهُ أَشْهَدُ أَنَّكَ إِمَامِي عِنْدَ اللَّهِ فَبَكَى الرِّضَا ع ثُمَّ قَالَ يَا عَمِّ أَ لَمْ تَسْمَعْ أَبِي وَ هُوَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص بِأَبِي ابْنُ خِيَرَةِ الْإِمَاءِ  ابْنُ النُّوبِيَّةِ الطَّيِّبَةِ الْفَمِ الْمُنْتَجَبَةِ الرَّحِمِ وَيْلَهُمْ لَعَنَ اللَّهُ الْأُعَيْبِسَ وَ ذُرِّيَّتَهُ صَاحِبَ الْفِتْنَةِ وَ يَقْتُلُهُمْ سِنِينَ وَ شُهُوراً وَ أَيَّاماً يَسُومُهُمْ خَسْفاً وَ يَسْقِيهِمْ كَأْساً مُصَبَّرَةً وَ هُوَ الطَّرِيدُ الشَّرِيدُ الْمَوْتُورُ  بِأَبِيهِ وَ جَدِّهِ صَاحِبُ الْغَيْبَةِ يُقَالُ مَاتَ أَوْ هَلَكَ أَيَّ وَادٍ سَلَكَ أَ فَيَكُونُ هَذَا يَا عَمِّ إِلَّا مِنِّي فَقُلْتُ صَدَقْتَ جُعِلْتُ فِدَاكَ.

 14۔  راوی کہتا ہے میں نے علی بن جعفر سے سنا  کہ اس نے روایت کی ہے حسن بن الحسین بن علی بن الحسین سے کہا کہ اس نے بیان کیا کہ خدا نے مدد کی امام رضا (ع) کی  انھوں نے کہا خدا کی قسم ہم انکے چچا ہیں  ہم نے بھی ان پر زیادتی کی  حسن نےکہا میں آپ پر فدا ہوں یہ آپ لوگوں نے  کیا  کیا ۔ میں  تو موجود نہ تھاانھوں نے کہا امام رضا (ع) کے بھائیوں نے اور ہم نے بھی کہا  ہم میں سے کوئی امام  سیاہ رنگ والا نہیں ہوا  امام (ع) نے فرمایا  (امام محمد تقی (ع) ) میرا بیٹا ہے انہوں نے کہا  زید بن حارثہ کے بارے میں  رسول اللہ نے قیافہ شناسوں  کے ذریعہ فیصلہ کیا تھا پس  ہمارے اور تمہارے درمیان بھی قیافہ سےفیصلہ ہوجائے  حضرت نے فرمایا تم ان کو بلالو  مجھے تو ان کے بلانے کی ضرورت نہیں  اور وہ تمہارے ہی گھروں میں آئیں  جب وہ آئیں تو انھوں نے  ہم کو باغ میں بٹھایا  اور امام رضا (ع) کے چچا بھائی اور بہنیں سب وہاں جمع ہوئے اور انھوں نے امام رضا  (ع) کو  ادنیٰ جبہ پہنایا اور اسی کی ٹوپی  سر پر رکھی اور گردن پر بیلچہ رکھا (کاشتکاروں اور کسانوں کے لباس میں  آپ کو نمایاں کیا )

اور کہا آپ باغ میں اسی طرح داخل ہوں گویا  آپ اس کے مالی ہیں  اور قیافہ شناسوں سے کہا  بتاؤ اس لڑکے کا باپ کون ہے انھوں نے کہا ان میں سے کوئی باپ نہیں ہے بلکہ یہ اس کے باپ کا چچا ہے  اور یہ اس کا چچا ہے اور  یہ اس کا چچاہے اور یہ اس کی پھوپھی ہے البتہ اس کا باپ یہ صاحب باغ ہے  ان دونوں کے قدم ایک سے ہیں پس امام رضا (ع)  چلنے لگے تو  انھوں نے کہا کہ  یہ اس کے باپ ہیں  علی بن جعفر نے کہامیں اُٹھا  اور  میں نے امام محمد تقی (ع) کے  لعاب دہن کو چوسا  اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں  آپ خدا کی طرف سے میرے امام ہیں  ۔

امام رضا (ع) نے گریہ فرمایا اور کہا اے چچا کیا تم نے میرے باپ کو کہتے نہیں سنا کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا ہے بہترین  کنیز کا فرزند آئیگا وہ اس زن جشیہ کا فرزند  ہوگا جس کے منہ سے خوشبو آتی ہوگی  اور طیب الراحم ہوگی اور الہام کیا جائے گا اس پر ،خدا کی لعن  ہو ان عباسیوں پر اور ان کی ذریت   پر (جنھوں نے اولاد سے دشمنی کی ) وہ (امام عصر) کو قتل کریں گے ان کو برسوں مہینوں اور دنوں اور ان کو  ذلت کی طرف کھینچیں  گے  اور وہ دور رہیں گے اپنے اب و جد سے  وہ صاحب غنیمت ہوں گے  اور اے چچا سب میری نسل سے ہوگا  ۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں  یہ آپ نے سچ کہا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ: Al Kafi Urdu

(الکافی اردو کتاب کی اینڈرائڈ ایپلیکیشن)

https://play.google.com/store/apps/details?id=book.usoolekafi.app

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

حضرت معصومہؑ نے کیوں شادی نہیں کی؟

حضرت معصومہ علیہا السلام 21 سال تک امام رضا علیہ السلام کے زیر تربیت رہیں اور ایک عالمہ اور فاضلہ کے طور پر آپ کی شخصیت نکھر کر سامنے آئی۔