عزاداری کے بعض آثار درج ذیل ہیں:
1۔مظلوم کی حمایت
عزاداری کے آثار میں سے ایک مظلوم کی حمایت اور طرفداری کااعلان ہے۔جو کسی مظلوم کی عزا میں شرکت کرتا ہے اور اس کی مظلومیت پر آنسو بہاتا اور گریہ کرتا ہے اس کام سے وہ کہنا چاہتا ہے کہ میں مظلوم کے نظریے اور ہدف پر ایمان رکھتا ہوں اور اسکے کام اور راستے کی تائید کرتا ہوں۔یہ ایسی چیز ہے جو تمام مکاتب فکر میں موجود ہے یعنی ہر مکتب کے پیروکار اور ماننے والے اس شخص کا احترام کرتے ہیں جس نے اس مکتب کی حفاظت اور احیاء کے لیے جان قربان کی ہو اور اسکے کام کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اس کے لیے مراسم اور تقریبات منعقد کرتے ہیں۔اگر ہوسکے تو شہروں کے اہم علاقوں میں اسکا مجسمہ بھی نصب کرتے ہیں۔یہ وہی تولّی اور اس مکتب کے پیشواؤں اور انکے پیروکاروں سے محبت کا اظہار ہے جنہوں نے اس مکتب کے لیے جانثاری اور فداکاری کی ہے۔ اور اسلام میں بھی اس پر تاکید کی گئی ہے۔شہدائے کربلا کی عزاداری اس نکتے کو زیادہ واضح اور روشن کرتی ہے۔اصل تولّی کی بنیاد پر ایک مکتب کے پیروکاروں میں ایمانی پیوند قائم ہوتا ہے۔اس طرح کہ اگر ان میں سے کوئی ایک شخص مشکل میں پھنس جائے و دوسرے اس پر ردعمل دیتے ہیں اور اسکی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اور یہ عزاداری کا مثبت چہرہ ہے۔
2۔ظالم سےنفرت اور اعلان برائت
عزاداری ،مثبت طرف کے علاوہ جوکہ مظلوم کی حمایت ہے اسی طرح منفی طرف کی بھی حامل ہے یعنی ظالم کی نفی اور اسکے کاموں سے بیزاری ہے جو مظلوم کربلا کی عزاداری میں شرکت کرتا ہےاس عمل سے وہ بتانا چاہتا ہے کہ میں شہید پر ظلم کرنے والے اور اس کے قاتل سے بیزار ہوں اور ظالم کے خلاف ہوں اور اسکا مکتب اوراہداف میرے لیے ناقابل قبول ہیں۔
ان دو فروع اسلام یعنی تولّی اور تبرا میں ایک معاشرے کا جاذبہ اور دافعہ چھپا ہوا ہے اور اسکے زندہ ہونے کی ترجمانی کرتا ہے۔بنابریں سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری ایک صاحب ایمان معاشرے کی انسانی اور معنوی حیات کی علامت ہے۔
3۔دینی معارف کی تعلیم
عزاداری کے اہم ترین آثار میں سے ایک لوگوں کو دینی معارف کی تعلیم دینا ہے۔یہ کام دینی واعظ اور علماء کام انجام دیتے ہیں۔خطیب حضرات ان مراسم میں دین کے احکام اور معارف کو بیان کرتے ہیں۔نماز، روزہ، حج ،زکات اور صلہ رحم ،اخلاق وغیرہ کے بارے میں تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے بیان سے احکام اسلام سے آشنائی اور ان پر عمل کی دعوت دیتے ہیں۔
اگر ایسے مراسم نہ ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کو دینی مراکز میں اکٹھا کیا جائے؟اور انہیں دینی معارف سکھائے جائیں؟
تاریخ میں مجالس امام حسین علیہ السلام لوگوں کے لیے کلاس درس کی طرح ہیں جن میں احکام ،تاریخ،عقائد اور دیگر سینکڑوں دینی اور غیر دینی موضوع پر بحث ہوتی ہے۔
یہ مجالس پرہیزگار،خدا تر اور حق جو افراد کی تربیت کا مرکز ہیں۔
4۔دینی اور سماجی وحدت
عزاداری امام حسین علیہ السلام کے مثبت آثار میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے مومن افراد امامت،شہادت اور دین پر جمع ہوتے ہیں۔مختلف گروہ تشکیل دیتے ہیں اور اس سے لوگوں کے درمیان وحدت کو فروغ ملتا ہے۔
عزاداری کی مختلف انجمنوں اور دستوں کی تشکیل معاشرے میں محبت اور مودت کا باعث ہے۔بچوں ،جوانوں اور نوجوانوں میں مذہبی شوق اور ہیجان پیدا ہوتا ہے۔
5۔اقتصادی مشکلات کا خاتمہ
عزاداری کے مثبت آثار میں ایک مادی فوائد ہیں۔جیساکہ ان مجالس میں مخیر افراد عزاداروں کو کھانا کھلاتے اور لنگر تقسیم کرتے ہیں تو اس سے حقیقی محتاجوں کو بھی حصہ مل جاتا ہے۔محتاجوں کی ضروریات واضح اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مساجد اورقرآن سینٹرز اور دیگر مذہبی اداروں کی امداد ہوتی ہے اور ضرورت مندوں کی مشکل حل ہوتی ہیں۔
حقیقت میں اس قسم کے پروگراموں میں اقتصادی اور سماجی مشکلات کوعام لوگوں کی مدد سے حل کرنے میں مدد ملتی ہے اور ایک دوسرے کی مشکلات بہتر طور اندازہ ہوتا ہے اور اسی طرح لوگوں کے دل ایک دوسرے قریب آتے ہیں۔
حوالہ:عزاداری رمز محبت،مہدی صدری،ص 232