سر ورق / خبریں / قرآن سوزی ،آزادی اظہار رائے یا اظہار نفرت؟

قرآن سوزی ،آزادی اظہار رائے یا اظہار نفرت؟

سویڈن اور ڈنمارک میں مسلسل گزشتہ چند روز سے قرآن مجید کی توہین کی جارہی ہے اور اسکے مقدس اوراق نذرآتش کیے جارہے ہیں۔یہ کام باقاعدہ دونوں ممالک کی پولیس کی باضابطہ اجازت سے انجام پا رہا ہے اور اسکے انجام دیے والے دو عراقی شہری ہیں جو دین اسلام سے مرتد ہوکر عراقی شہریت ترک کرچکے ہیں اور سویڈن کی شہریت اختیار کرلی ہے۔

سویڈن کی حکومت  ،سویڈش ڈیموکریٹ کی حمایت پر قائم ہے جو اپنے اسلام دشمن ایجنڈے کے لئے مشہور ہے۔ اس حد تک حکومت کی حامی ایک بڑی پارٹی خود قرآن، مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں وہی خیالات رکھتی ہے جس کا اظہار قرآن سوزی کی صورت میں ایک یا دو افراد کرتے ہیں جبکہ اس تنظیم کے رکن پہلے بھی ایسی توہین آمیز  حرکات انجام دے چکے ہیں۔

حکومت ظاہری طور پر ایسے واقعات کی مذمت کرتی ہے لیکن درحقیقت اس  شرمناک عمل کی اجازت دے کر حکومت اور پولیس دونوں اس جرم میں شریک ہیں۔انکی دلیل یہ ہے کہ کسی کے خلاف احتجاج کرنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے اور وہ قلم اور بیان سے احتجاج کرسکتا ہے۔ چاہے کسی کو یہ بات بری لگے۔

 امرواقعہ یہ ہے کہ یہ کسی طور بھی جمہوری حق ہیں کوئی بھی مہذب انسان یا قوم ایسا کوئی شرمناک فعل انجام نہیں دیتی جس سے پوری دنیا میں اضطراب پھیل جائے۔  اگر اسے جمہوری حق تسلیم بھی کرلیا جائے تو جب ایک مرتبہ اپنا حق استعمال کرلیا گیا تو اب دوبارہ اسکی گنجائش نہیں ہونی چاہیے مگر ہزاروں احتجاج کی درخواستوں میں سے صرف ایسی ہی درخؤاستوں کی اجازت دی جاتی ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات کی توہین ہوتی ہو۔

دوسرا یہ کہ یہ جمہوری حق تقریر اور تحریر کی صورت میں ہے لیکن جب یہ عملی اقدام کا باعث بنے تو یہ جمہوری حق ہیں بلکہ ایک طرح سے جرم ہے جیسے اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھے فلاں نظریہ یا تنظیم کے خلاف احتجاج کرنا ہے اسے اجازت ملتی ہے اور وہ احتجاج کرتا ہے مگر اسے ہرگز اجازت نہیں کہ وہ اس مخالف کو قتل کردے یا اسکا گھر جلا دے یا اسکا سامان یا گاڑی جلا دے۔

قرآن سوزی کا واقعہ باقاعدہ ایک سازش لگتا ہے تاکہ مسلمانوں میں اضطراب پیدا کیا جاسکے اور اسی لیے تقریر اور تحریر سے بڑھ کر قرآن سوزی کی اجازت باربار  دی جاتی ہے  اور خود قرآن سوزی کرنا بھی تقریر اور تحریر سے ہٹ کر ہے جس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔ہوسکتا ہے کل کلاں یہی لوگ یہ اجازت مانگ لیں کہ ہمیں مسلمانوں کو قتل کرنے یا انکی مساجد یا گھر جلانے یا مسمار کرنے کی اجازت دی جائے تو کیاو ہ اجازت بھی دے دی جائے گی؟

یہ نہ صرف انسانی شعور کے خلاف ہے بلکہ سویڈش آئین کے خلاف بھی ہے اور اسی طرح اقوام متحدہ کے چارٹر کے مخالف بھی ہے کیونکہ اس میں ہر ایک انسان کو اپنا عقیدہ رکھنے کی آزادی دی گئی ہے۔کسی کو اس پر قدغن لگانے کی اجازت نہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا عملی طور ایسے شرمناک فعل کو جمہوری حق کہنا درست ہے؟

آزادی اظہار کی نام پر ایک ’ عملی حرکت‘ کی اجازت دینے والی حکومتوں کو اس معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے تاکہ جمہوری نظام میں آزادی اظہار کے نام پر نفرت انگیزی، تشدد اور ایک خاص گروہ کے خلاف کارروائی کا ایک نیا سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔

مغربی ممالک میں قرآن جلا کر احتجاج ریکارڈ کروانے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے، وہ درحقیقت احتجاج نہیں بلکہ ایک خاص گروہ اور مذہب کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ صرف قرآن جلاتے ہیں، کبھی دیگر مذاہب کی مقدس کتب کو آگ نہیں لگاتے۔ اگر یہ عناصر خاص طور سے مذہب کے انسانی زندگی پر اثرات کو جبر سمجھتے ہوئے اس کے خلاف کام کر رہے ہوتے تو قرآن کے علاوہ کبھی وہ توریت، انجیل، گیتا یا دوسرے مقدس صحیفوں کو بھی نذر آتش کرتے۔

ایسی فکر رکھنے والے افراد کسی بھی جمہوری قانون کو نہیں مانتے بلکہ ایک خاص قسم کا جبر معاشرے پر مسلط کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔حکومتوں کو بھی چاہیے کہ زبانی کلامی مذمت کرنے کے بجائے ایسے افراد کو لگام ڈالے اور معاشرے میں اضطراب اور ہیجان پیدا کرنے کی کوششوں کا سد باب کرے۔

نوٹ: ادارے کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

حوالہ: ثقلین فاؤنڈیشن قم ۔ایران

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

خدارا فتنوں کی آبیاری مت کیجئے!

آج 75 سال ہوگئے ہیں ہم اس نعمت کا صحیح استعمال نہیں کرسکے اور نہ ہی یہ سمجھ سکے ہیں کہ اسکا کیسے استعمال کیا جائے؟