کیا ایک قطرہ آنسو گناہوں کی بخشش کا باعث بن سکتا ہے؟
کیا ممکن ہے کہ گریہ کے چند آنسو انسان کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں؟
کیا گریہ کرنے سے ہمیں شفاعت نصیب ہوگی؟
کیا یہ لوگوں کو گناہ کے ارتکاب پر اکسانے کے مترادف نہیں؟
جواب:
یہ اعتراض عام طور پر اہل سنت کی جانب سے کیا جاتا ہے اور ان کے دیکھا دیکھی کچھ روشن فکر شیعہ بھی انکے ہمفکر ہوجاتے ہیں۔
اس اعتراض کاجواب یہ ہے کہ ہاں امام حسین علیہ السلام کے غم میں ایک بھی بہایا جانے والا آنسو کا قطرہ انسان کے تمام گناہوں کی بخشش کا سبب ہے۔
اس کی مثال اس توبہ کی مانند ہے جو آیات اور روایات میں بیان ہوئی ہے۔
جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں وہ آیات اور روایات کو قبول کرتے ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ:
خدا کی عفوو رحمت اور گناہوں کی بخشش کے متعلق آیات اور روایات مطلق آئی ہیں جیساکہ:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
ترجمہ: آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (گناہ پر گناہ کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔(زمر ،53)
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ
ترجمہ: یقینا اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سوا (ہر گناہ) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔(نساء،48)
ان آیات کا کیا مطلب ہے؟
آیات و روایات ایک گناہ گار انسان سے کہتی ہیں کہ توبہ و استغفار اور خدا کی طرف بازگشت کی صورت میں تمہارا تاریک ماضی نادیدہ شمار ہوگا اور بے گناہی کے مترادف ہوگا۔
یہ کیسے قابل قبول ہے؟
کئی اعمال بھی مغفرت اور گناہوں کی بخشش کا سبب شمار کیے گئے ہیں ان کا کیا جواب ہے؟
(إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ
(ہود ،114))
ترجمہ: بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں
بلکہ کیا اس آیت کا عموم بھی کسی طرح قابل تاویل و توجیہ ہے؟
کیا ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ:
اے میرےبندو! جتنا چاہو گناہ کرو خدا تمہیں بخش دے گا؟
یا جتنا چاہو گناہ کرو خدا تمہیں توبہ کی صورت میں بخش دے گا؟
یا جو دل چاہتا ہے کرو کیونکہ نیک و صالح اعمال سے ان کاموں کی تلافی کی جاسکتی ہے؟
کوئی بھی باشعور اور سمجھدار انسان ان آیات و روایات سے ایسا مطلب ہرگز نہیں سمجھتابلکہ وہ سمجھتا ہے کہ خداوند متعال اپنی رحمت واسعہ کے سائے میں اپنے بندوں کو مایوسی سے دور کرنے کے لیے ان کے دلوں میں رجاء اور امید کا دیا جلا کر انہیں اپنی رحمت اور مغفرت کا وعدہ دے کر امیدوار بناتا ہے یعنی گناہ کے ارتکاب کی صورت میں ناامید نہ ہوں بلکہ توبہ سے خود کو گناہوں سے پاک وپاکیزہ کرلیں۔
خداوند متعال کی رحمت الہی کے ابواب میں وسیع ترین باب خو د امام حسین علیہ السلام کی ذات مقدس ہیں۔
نیکیوں میں ایک ایسی نیکی اور حسنہ جو گناہ کو ختم کردیتی ہے اور آیت کے عموم کے شامل حال بناتی ہے وہ امام حسین علیہ السلام کی ذات او رانکے غم میں گریہ کرنا ہے۔
ان عمومات کے علاوہ نبی کریم ﷺ اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے اس حوالے سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں جن کی حجیت اور دلالت کامل ہے۔
کیسے ممکن ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کے فرامین کو جھٹلا دیں کیا ہمیں انکی حجیت کا علم نہیں ہے؟
دوسرے اعمال جو مغفرت اور بخشش کا باعث بنتے ہیں ان پر اعتراض کیوں نہیں کیا جاتا ؟آج تک آپ نے کسی کو سنا ہے جو صدقہ،صلہ رحم،نماز تہجد اور اس جیسے دوسرے اعمال پر اعتراض کرے کہ یہ اعمال گناہوں کی بخشش کا سبب کیوں ہیں؟
اہم بات ! جس طرح شیطان کئی لوگوں کو اصل ولایت سے گمراہ کرکے ہلاکت میں ڈ ال دیتا ہے،اسی طرح شیطان کے بعض نمائندے اہلبیت علیہم السلام کی ولایت اور دیگر امور جیسے تعظیم شعائر کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں شک ڈال کر انہیں گمراہ کردیتے ہیں۔
آخر میں ضروری نکتہ یہ ہے کہ عزاداروں کی شفاعت فقط انکے گناہوں کی بخشش اور مغفرت سے مخصوص نہیں بلکہ انکے درجات بھی بلند کرتی ہے۔
حوالہ: عزاداری رمز محبت،مہدی صدری،ج 2 ص 102