ج: جی ہاں۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ اردو زبان بولنے والا ہو ، خواہ دنیا میں کہیں بھی رہتا ہو۔
سن ۲۰۱۸ کے آغاز میں ۔
رواں تعلیمی سال میں 55 طلاب دینی علوم کے حصول میں مشغول ہیں
المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی (برصغیر نمائندگی ) کی زیر نگرانی ، جنور ی اور فروری میں، البتہ کسی ناگزیر وجوہات کی بنا پر تأخیرکا شکار ہو سکتا ہے۔
17 سے 23سال عمر ۔انٹرمیڈیٹ۔ مناسب استعداد اور صلاحیت۔ اعلی دینی تعلیم کے حصول کا شوق ۔ ٹیسٹ اور انٹرویو میں کامیابی، مبتدی ہو یا ایک سال سے زیادہ اعلی دینی تعلیم (حوزہ) کا طالب علم نہ ہو۔
ستمبراور اکتوبر میں
ابتدائی کورس تقریبا ۶(چھ) سال کا ہے۔
فارسی زبان کے کورس کے بعد ، قرآن اور سنت کو صحیح اور گہرائی کے ساتھ جاننے کے لئے ادبیات عرب، علم منطق ، اصول فقہ، فقہ، کلام و فلسفہ و عرفان ، تاریخ اور علوم قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ ان علوم کے وسیلے سے مکتب اہل بیت (ع) کے بیان کردہ اعتقادات، اخلاقیات اور احکامات پر دسترسی حاصل ہوسکے۔
- دین کی کامل اور جامع تصویر سے آشنائی
- حوزہ کی برجستہ روایتی صفات اور گہرائی کو برقرار رکھتے ہوئے جدید اور جذاب روش تحصیل کا فروغ
- طلاب میں غور و فکر کی صلاحیتوں اور اجتماعی سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے بھرپور کوشش
- تربیت طلاب پر خصوصی توجہ اور اسمیں تیزی سے ترقی کے لئے پورے دن کے اوقات کی صحیح اور دقیق تقسیم اور اس پر خصوصی نظارت
- تلاوت قرآن ، نماز باجماعت ، زیارت حضرت معصومہ (س) اور دعاوں کی جانب ترغیب
- طلاب کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے انہیں تدریس، تقریر ، تصنیف اور تبلیغ کے مواقعوں کی فراہمی
درسی سرگرمیوں میں کلاس کے علاوہ درس کا مطالعہ(کلاس سے پہلے اور کلاس کے بعد)، مباحثہ(چند طلاب کا درس کے مطالب کو آپس میں مورد گفت و شنید قرار دینا)،خلاصہ نویسی اور حفظ شامل ہیں۔ جبکہ تربیتی سرگرمیوں میں صبح اور رات کے وقت میں دعا ئیہ پروگرام ، جماعت کے ساتھ پنجگانہ نمازیں، حضرت معصومہ (س) کی زیارت، محفل قرآن اور درس اخلاق شامل ہیں۔ اور یہ سلسلہ تقریبا ۹ سے ۱۲ گھنٹوں پر مشتمل ہے۔
جی نہیں۔ رائج نظام درسی ہی ہے۔ فقط اس فرق کے ساتھ کہ:
برصغیر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے کچھ اہم موضوعات اور مہارتوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مثلا برصغیر میں موجود مختلف دینی مسالک اور مکاتب سے آشنائی ، فن مناظرہ اور خطابہ وغیرہ
استاد کے ساتھ ساتھ ایک معاون استاد کا اہتمام کیا گیا ہے جو درس کے مطالب کو اچھے طریقے سے منتقل کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کرے۔
برصغیر کے حوزوی مدرسوں کی ایک اہم اور منفرد خصوصیت یہ تھی کہ استاد گذشتہ درس کے ذہن نشین کرانے کے لئے پچھلا درس سنتا اور مختلف مثالوں پر تطبیق کرواتا تھا جو طلبہ کے لئے بہت زیادہ مفید تھا۔ اس وقت مختلف علوم کی وسعت ، طلاب کرام کی کثرت ،اور وقت کی قلت اس بات کا سبب بنی ہے کہ اس امر پر توجہ کم ہوگئی ہے۔ مدرسہ علمیہ ثقلین نے اس مسئلے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے معاون استاد رکھا ہے جو استاد کے دیئے درس کی بعض پیچیدگیوں کو حل کروانے میں اور ساتھ ہی ساتھ گذشتہ درس سننے اور مختلف مثالوں پر قواعد کی تطبیق، خلاصہ نویسی اور حفظ کی مہارت کے حصول میں طلاب کی مدد کرتا ہے۔
معاون استاد رکھے جانے کی ایک وجہ ، باصلاحیت نوجوانوں کے لئے استاد بننے کے مواقع کی فراہمی ہے۔ مدرسہ کی حتی الامکان یہ کوشش رہے گی کہ طلاب اپنی تعلیم کے تیسرے اور چوتھے سال سے ابتدائی کتابوں کی تدریس میں استاد کے معاون بنیں اور بہت جلد ایک بہتر استاد کے طور پر اپنے فرائض بجالائیں۔
کوئی شک نہیں ہے کہ حوزہ علمیہ کے ثمرات میں سے یہ بھی ہے لیکن بسا اوقات ابتدائی طالب علم کے لئے آزادانہ طور پر مختلف سلیقوں اور افکار کے افراد کے ساتھ میل جول ، کج فکری یا بہت جلد بلند پروازی کے شوق کا باعث ہوتا ہے۔ لہذا ابتدا میں مدرسہ خود ہی مناسب افراد کے ساتھ آشنائی کا وظیفہ ادا کریگا تاکہ استحکام فکری کے ساتھ طلاب حوزہ کی خوبصورتیوں سے بہرہ مند ہوسکیں۔
اس کے سد باب کے لئے مدرسہ نے تعلیمی پالیسی کچھ یوں مرتب کی ہے کہ آدھے دروس فارسی زبان میں رکھے ہیں۔ علاوہ بر این طلاب کے لئے آپس میں فارسی زبان بولنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے ۔
متعارف صورتحال میں اجازت نہیں ہے۔ ہاں مدرسہ اپنی صواب دید پر تعلیمی اور تربیتی ترقی کے لئے مناسب افراد کو خود ہی اعلیٰ تعلیمی اور تخصصی اداروں کی طرف بھیج دے گا۔
شروع میں کچھ مشکلات کا سامنا ضرور رہا، لیکن الحمدللہ والدین، طلاب، اساتید اور انتظامیہ کے باہمی تعاون کی بدولت کورونا ایس او پیز کی رعایت کے ساتھ مدرسہ اپنی سرگرمیوں کو اپنے معمول کے مطابق انجام دیتا رہا۔