سر ورق / داستان و حکایات / بابرکت فاطمی ہار

بابرکت فاطمی ہار

جابر بن عبدالله انصاریؓ کہتے ہیں:

ایک دن رسول خداﷺ نماز عصر کی ادائیگی کے بعد محراب مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ کے اردگرد  جمع تھے ،اس وقت عرب مہاجرین میں سے ایک بوڑھا شخص آپ کی خدمت میں آیا اور اس نے پرانا لباس پہن رکھا تھا اور کمزوری کی وجہ سے سیدھا کھڑا ہونے سے معذور تھا۔رسول خداﷺ  اسکی آمد کے بارے میں متوجہ ہوچکے تھے آپؐ اسکی جانب نگاہ کی اور اسکا حال دریافت کیا۔

بوڑھے شخص نے کہا: اے محمدؐ! میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دو! عریان ہوں مجھے لباس دو!فقیراورمحتاج ہوں مجھے بے نیاز کرو!

رسول خداﷺ نے فرمایا: میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو تمہیں  دوں لیکن  نیر کا حکم دینے والا ایسے ہے جیسے اسے انجام دینے والا ہے ۔اٹھو اور اس کے در پر جاؤ  جو خدا اور اسکے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور خدا اور اسکا رسولؐ اس سے  محبت کرتے ہیں اور جو خدا کو خود پر مقدم رکھتا ہے ،شہزادی فاطمہؑ کے دروازے پر جاؤ!

پھر رسول خداﷺ نے بلال سے فرمایا: جاؤ اور اس اعرابی کو فاطمہؑ کے گھر کا راستہ دکھاؤ!

وہ بوڑھا بلال کے ساتھ ہولیا یہاں تک کہ در شہزادیؑ پر پہنچ گئے اور بلندآواز سے کہا:

السلام علیکم یا اهل بیت النبوة و مختلف الملائکه و مهبط جبرئیل الروح الامین بالتنزیل من عند رب العالمین

اے نبوت کے گھرانے والو ،محل نزول ملائکہ ،خدا کی جانب سے قرآن مجید لیکر نازل ہونے والے جبرئیل امینؑ کی جگہ پر سلام ہو

شہزادیؑ نے فرمایا: وعلیک السلام، تم کون ہو ؟

بوڑھے نے عرض کیا:میں ایک عربی بوڑھا شخص ہوں بہت دور سے آپ کے والد گرامی کی خدمت میں آیا  ہوں۔اے بنت رسولؑ! میں  برہنہ اور گرسنہ ہوں میری مدد کیجئے! خدا آپ پر رحمت نازل فرمائے!

راوی کہتاہے: یہ وہ وقت تھا جب رسول خداﷺ،حضرت علی  اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہما نے تین دن سے کھانا نہیں کھایا تھا اور رسول خداﷺ کو بھی حضرت علیؑ اور شہزادی ؑکے بارے میں علم تھا۔

 بہرحال حضرت فاطمہؑ سے اسے چمڑے کا ایک ٹکڑا دیا جس پر حضرات حسنینؑ سوتے تھے اور فرمایا کہ یہ لو! شاید خدا اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے!

اس نے کہا: اے بنت رسولؑ! میں آپ کے سامنے اپنی بھوک  کا رونا رو رہا ہوں آپ مجھے بھیڑ کی کھال عطا کررہی ہیں،میں اس بھوک اور کمزوری کی حالت میں اس کھال  کا کیا کروں؟یہ میرے کس کام کی؟روای کہتا ہے: جب شہزادیؑ نے یہ سنا تو اپنا ہار گلے سے اتار کر اسے دے دیا جو حضرت حمزہ کی بیٹی فاطمہ نے آپ کو ہدیہ کیا تھا  اور فرمایا: یہ ہا ربیچ دو،شاید مہربا ن خداتمہیں اس سے بہتر عنایت فرمائے۔

بوڑھے شخص نے وہ ہار لیا اور مسجد پلٹ آیا اور رسول خداﷺ سے عرض کی:اے رسول خداﷺ! یہ ہار آپ کی بیٹی نے مجھے عطا کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اسے بیچ دوں شاید خدا اس سے بہتر تجھے عطا فرمائے۔

رسول خداﷺ نے ہار دیکھ کر گریہ فرمایا اور فرمایا: خدا تجھے اس سے بہتر کیوں عنایت نہ کرے گا حالانکہ یہ ہار تجھے  خدا کے افضل ترین نبی ؐ کی بیٹی نے تجھے عطا کیا ہے۔

حضرت عمار یاسرؓ کھڑے ہوئے اور عرض کی: اے رسول خداﷺ! کیا مجھے اجازت ہے کہ یہ ہار میں خرید لوں؟

رسولﷺ نے فرمایا: خرید لو،خدا کی قسم! اگر کوئی اسکی خریداری میں شریک ہوگا تو خدا اسے کبھی جہنم کی آگ کے عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا۔

عمار نے کہا: اے شخص! یہ ہار کتنی قیمت میں بیچو گے؟

بوڑھے نے کہا: گوشت اور نان پیٹ بھر نے کے لیےاور ایک یمانی چادر  کاٹکڑا جس سے خود کو چھپا نے اور اسکے ساتھ  خدا کے لیے نماز ادا کرسکوں اور ایک دنیا ر جس سے اپنے اہل و عیال کے پاس جا سکوں۔

حضرت عمار ؓنے خبیر کے غنائم کو فروخت کر رکھا تھا جو انہیں رسول خداﷺ کی جانب سے حصہ ملا تھا، کہا:20 دینار اور200 درہم اور ایک یمانی چادر اور ایک اونٹ جو میرا پنا ہے اور تجھے باآسانی تیرے وطن پہنچا دے گا،گندم کی روٹی اور گوشت تجھے دوں گا اور یہ ہار تجھ سے خرید لیتا ہوں۔

بوڑھے نے کہا:اے شخص! تو کتنا سخاوتمند ہے! پھر عمار نے اس سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور ہار لے لیا۔اس کے بعد رسول خداﷺ نے اس اعرابی سے کہا:تم سیر ہوگئے ہو؟اپنا بدن ڈھانپ لیا ہے؟

بوڑھے نے کہا:جی ہاں! میرے ماں باپ آپ پر قربان،میں بے نیاز ہوگیا ہوں۔

نبی مکرمﷺ نے فرمایا:اب تو راضی ہے تو میری فاطمہؑ کے لیے خیر کی دعا کرو ۔

بوڑھے نے کہا : خدایا! تو خدا ہے ازلی اور ہم تیرے علاوہ کسی کی پوجا نہیں کرتے تو رازق مطلق ہے پس خدایا! فاطمہؑ کو ایسی چیز عطا فرما کہ آج تک جسے کسی کی آنکھوں  نے نہ دیکھا ہو اور کسی کے کانوں نے اس کے متعلق نہ سنا ہو۔

پیغمبر اسلامﷺ نے آمین کہا اور اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:خدا نے یہ دعا دنیا میں فاطمہؑ کے لیے قبول کرلی ہے۔کیونکہ اسے ایسا باپ نصیب فرمایا جس کی مانند کسی کا باپ نہیں تھا اور ایسا شوہر دیا جس کی مثال اور نظیر نہیں ملتی اور ایسے بیٹے عنایت فرمائے جن کی مانند کسی کے بیٹے نہیں اور وہ جوانان جنت کے سردار ہونگے۔

پھر مقداد،عمار اور سلمان کی طرف رخ کرے فرمایا:کیا تم چاہتے ہو کہ اس سے زیادہ تمہارے لیے بیان کروں؟

رسول خداﷻ نے فرمایا:جبرئیل امینؑ میرے پاس آئے اور کہاٖ جب فاطمہؑ رحلت کریں گی اور دفن ہوجائیں گی تو دو فرشتے اس سے خدا ،نبی اور انکے ولی کے بارے میں سوال کریں گے اور وہ جواب دے گی کہ میرا رب خدائے وحدہ لاشریک ہے اور میرا نبی میرا والد اور میرا ولی میرا شوہر ہے جو ابھی میری قبر پر کھڑا ہے۔

اور رسول خدا ﷺ نے فرمایا: دیکھو میں اس کے بعض دوسرے فضائل تمہارے سامنے بیان کروں۔خدا نے فرشتوں  کے گروہ کو حکم دیا ہے کہ فاطمہؑ کی چاروں طرف سےحفاظت کریں۔یہ فرشتے فاطمہؑ کی زندگی میں ،اسکی قبر میں اور وفات کے وقت اسکے ساتھ ہوں گے اور بہت زیادہ درود و سلام اس پر اور اسکے والد،شوہر اور اولاد پر  بھیج رہے ہوں گے۔

پس جو مجھے میری وفات کے بعد میری زیارت کرے گا گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی اور جس نے فاطمہؑ کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی اور جس نے علیؑ کی زیارت کی گویا اس نے فاطمہؑ کی زیارت کی اور جس نے حسن و حسینؑ کی زیارت کی گو یا اس نے علیؑ کی زیارت کی اور جس نے حسن وحسینؑ کی اولاد کی زیارت کی گویا اس نے ان دونوں کی زیارت کی۔

اس فرمان کے بعد حضرت عمارؓ نے شہزادیؑ کے ہار کو مشک کی خوشبو  لگائی اور یمانی کپڑے میں لپیٹ کر ایک سم نامی غلام کے حوالے کیا اور اسے کہا کہ یہ پیغمبرﷺ کی خدمت میں لے جاؤ اور خود اس غلام  کو بھی پیغمبر ﷺ کو ہدیہ کردیا۔

وہ غلام ہار لیکر رسول خداﷺ کی خدمت میں آیا اور حضرت عمارؓ کے بات  آپ کے گوش گزار کی۔آپ ؐ نے  اسے فرمایا: میں تجھے اس ہار کے ساتھ فاطمہؑ کو بخش دیا ہے۔سہم ،شہزادیؑ کے پاس آیا اور پیغمبرﷺ کی بات آپ کے سامنے بیان کی اور شہزادیؑ نے وہ ہار لیا اور اس غلام کو آزاد کردیا۔

یہ غلام آزادی کے بعد ہنسا اور بہت زیادہ خوش ہوا۔شہزادیؑ نے دریافت کیا: کس لیے ہنس رہے ہو؟

غلام نے عرض کی: اس ہار کی عظیم برکت اور خیر کثیر نے مجھے ہنسنے پر مجبور کیا ہے کیونکہ اس نے بھوکے  کوسیر کیا،برہنہ کو لباس دیا،محتاج اور فقیر کو بے نیاز کیا اور غلام کو آزاد کیااور آخرکار اپنے اصلی مالک کے پاس واپس پہنچ گیا۔

ماخذ: بحار الانوار ج43  ص324، ترجمہ روحانی

ترجمہ وپیشکش: ثقلین فاؤنڈیشن۔قم

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

 حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب کی شجاعت

میں نے دیکھا حسان  نےتو صاف جواب دیدیا ہے۔میں نے خود کمر ہمت باندھی اور قلعہ سے باہر نکلی اور ایک خیمے کی لکڑی سے اس پر حملہ آور ہوئی.