امام حسن علیہ السلام مالی ،بدنی اور دونوں سے مرکب عبادات میں اعلی درحہ تک پہنچے ہوئے تھے۔
بدنی عبادت جیسے نمازو ذکر اور دعا، آپ کا قیام معروف اور مشہور ہے۔
مالی عبادت جیسے صدقات،حلیۃ الاولیاء میں نقل ہوا ہے کہ امام حسن علیہ السلام دو مرتبہ اپنا سارا مال راہ خدا میں بخش دیا اور تین مرتبہ اپنا مال فقرا کے ساتھ تقسیم کیا اوراپنا مال کا آدھا حصہ فقرا کو دیدیا یہاں تک کہ اپنے نعلین مبارک بھی تقسیم کردیئے۔
اور مرکب عبادات کے حوالے سے حلیۃ الاولیاء میں منقول ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ حج کے سفر میں سواری پر سوار ہوں اور پیدل حج کے لیے نہ جاؤں۔
اسی وجہ سے امام نے 20 مرتبہ پائے پیادہ مدینہ سےمکہ حج کے لیے سفر کیا جبکہ سواری بھی ہمراہ تھی۔
لکھا گیا ہے کہ امام حسن بن علی علیہما السلام اخلاق،رفتار،شرافت اور سیادت میں رسول اللہﷺ سے بہت زیادہ شبیہ تھے۔
امام صادق علیہ السلام نے اپنے والد اور انہوں نے امام سجاد علیہ السلام سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا:حسن بن علی علیہ السلام اپنے زمانے کے لوگوں میں سے سب سے زیادہ عابد،زاہد اور افضل ترین شخص تھے۔سفر حج میں پیادہ اور کبھی برہنہ پاؤں سےسفر کرتے تھے۔جب موت کو یاد فرماتے تو گریہ فرماتے۔جب قبر یا حشر یا قیامت یا صراط سے عبور کو یا دکرتے تو گریہ فرماتے۔جب اس وقت کو یاد کرتے جب خدا کے سامنے آپ کے اعمال پیش ہونگے تو چیخ مار کر بے ہوش ہو جاتے۔جب نماز میں کھڑے ہوتے تو اپ کا بدن خوف خدا سے لرزنے لگتا۔جب جنت وجہنم کو یاد کرتے تو سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح تڑپتے۔ خداسے جنت کے حصول کی دعا کرتے اور دوزخ سے خدا کی پناہ مانگتے۔تلاوت قرآن میں جب اس آیت(یا أیّها الذین آمنوا) پر پہنچتے تو فرماتے:( لبیک اللھم لبیک!) ہمیشہ لبوں پر ذکر خدا ہوتا۔لوگوں میں سب سےزیادہ سچے اور فصیح ترین فرد تھے۔
امام رضا علیہ السلام نے اپنے آباؤ اجداد سے نقل کیا ہے کہ امام حسن علیہ السلام موت کے وقت گریہ فرما رہے تھے تو کسی نے عرض کیا:اے فرزند رسول!آپ کا رسول اللہﷺ کے نزدیک ایک مقام تھا اور 20 مرتبہ پیدل حج کیے اور تین مرتبہ اپنا مال فقرا کے ساتھ تقسیم کیا پھر بھی گریہ فرما رہے ہیں؟ فرمایا:میرا گریہ دو چیزوں کی وجہ سے ہے ایک قیامت کا خوف اور دوسرا دوستوں سے جدائی۔
جب امام حسن بن علی علیہما السلام مسجد کے دروازے پر پہنچتے تو سر اٹھا کر عرض کرتے:
الهى! ضیفک ببابک! یا محسن! قد أتاک المسیء، فتجاوز عن قبیح ما عندی بجمیل ما عندک یا کریم!
جب نماز سے فارغ ہوتے تو طلوع آفتاب تک کسی سے کلام نہیں کرتے تھے۔
ماخذ : بحار الانوار وکشف الغمہ
ترجمہ وپیشکش: ثقلین فاؤندیشن قم