سر ورق / رمضان المبارک / ماہ رمضان اور قرآن کریم(ماہ رمضان اور قرآن 4)

ماہ رمضان اور قرآن کریم(ماہ رمضان اور قرآن 4)

ماہ رمضان اور قرآن کریم:

ماہ مبارک رمضان کا تعارف ہی قرآن کریم کے ساتھ ہے ۔ سورہ بقرہ  میں رب العزت ارشاد فرماتا ہے :

 ’’شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَ بَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى‏ وَ الْفُرْقانِ…..[1]

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔۔

امام  محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ’’ ہر چیز کےلیے بہارہے اور قرآن کی بہار ماہ مبارک رمضان ہے‘‘۔[2]

یہ ہی سبب ہےکہ دیگر مہینوں کے مقابلے میں ماہ رمضان میں قرآن پڑھنے کی زیادہ سفارش کی گئی ہے

امام صادق علیہ السلام سے کسی نےپوچھا: کتنے دنوں میں قرآن ختم کیاجائے؟فرمایا: (کم از کم) چھ اور اس سے زیادہ  دنوں میں ۔ پھر اس نے دوبارہ خصوصیت سے ماہ رمضان کے بارے میں پوچھا؟امام علیہ السلام نے فرمایا: تین دنوں  میں پڑھا جاسکتا ہے۔ [3]

بہرحال اتنی بات یقینی ہے کہ تلاوت قرآن کے فوائد  و اثرات سے صحیح معنی میں انسان اسی وقت بہرہ مند ہوسکتا ہے جب آداب تلا وت کی رعایت کی جائے اور شاید اسی خاطر امام علیہ السلام نے ماہ رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں چھ اور ماہ رمضان میں تین دنوں کی قید لگائی ہے ۔

اہمیت رعایت آداب تلاوت قرآن:

پس اگرچہ بعض روایات میں اجازت دی گئی ہے کہ ہر رات ایک قرآن ختم کیا جایا جاسکتا ہے[4]  اور بعض  دیگر روایات میں اس سے روکا گیا ہے کہ ایک رات میں قرآن کو مکمل کیا جائے[5]۔ لیکن اس ظاہری  تناقض کا حل ان ہی روایات میں پوشیدہ ہے جن کا ماحصل یہ ہے کہ اہم ترین ادب ِتلاوت یعنی ترتیل کا لحاظ رکھا جائے  اور بہت تیزی سے قرآن مت پڑھا جائے، خواہ ایک ختم قرآن کے لیے ایک ماہ ہی کیوں نہ لگ جائے ۔

امام صادق علیہ السلام اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’اللہ کے رسول ﷺ کے اصحاب ایک مہینہ یا اس سے کم میں قرآن ختم کیا کرتے تھے چونکہ قرآن کو جلدی میں تلاوت نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اسے ترتیل کے ساتھ  ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جاتا ہے پس جب ایسی آیت سے گذر ہو   جس میں جنت کا تذکرہ ہو تو ٹھہرو اور خدا سے بہشت کا تقاضہ کرو اور اگر ایسی آیت کا سامنا ہو جس میں جہنم کا ذکر ہو تو (بھی) ٹھہرو اور خدا سے اس سلسلے میں پناہ مانگو۔ [6]

ایک  اور مقام پر جب امام علیہ السلام سے قرآن کریم کی اس آیت ’’و رتل القرآن ترتیلا[7] ‘‘  کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ علیہ السلام نے امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے نقل فرمایا کہ انہیں نے اس کی تشریح کچھ یوں فرمائی:

’’ بَيِّنْهُ تِبْيَاناً وَ لَا تَهُذَّهُ هَذَّ الشِّعْرِ وَ لَا تَنْثُرْهُ نَثْرَ الرَّمْلِ وَ لَكِنْ أَفْزِعُوا قُلُوبَكُمُ الْقَاسِيَةَ وَ لَا يَكُنْ هَمُّ أَحَدِكُمْ آخِرَ السُّورَةِ‘‘  [8]

ترجمہ: ’’ اسے  مکمل طور پر واضح کرکے پڑھیں (حروف کو ان کے صحیح مخارج کے ساتھ ادا کریں اور اس طرح الگ الگ کرکے پڑھیں کہ کانوں سے ہر حرف ٹکرائے اور اسے گنناممکن ہو)[9] اور جیسے شعر کو تیزی سے پڑھا جاتا ہے ایسے قرآن کو تلاوت نہ کریں    اور جیسے ریت کے ذرات پراکندہ ہوجاتے ہیں ایسے بھی  نہ کرے(اتنا آہستہ پڑھنا کہ حروف ایک کلمہ میں جمع نہ ہونے پائیں اور حدسے زیادہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں) [10]بلکہ اپنے سخت دلوں کو اس کے ذریعے سے ڈرائیں  اور ہدف یہ نہ ہو کہ  بس سورہ مکمل ہوجائے۔‘‘

افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھتا ہے کہ اس قدر واضح سفارش کے باوجود معاشرہ کی ایک بڑی تعداد سورہ اور پارہ مکمل کرنے  کے درپے ہوتی ہے اور ختم قرآن  کو افتخار کی نیت سے دیکھا جاتا ہے خواہ دیگر آداب کی رعایت نہ کی گئی ہو۔

آج  دیندار معاشرہ کا اپنے کمال تک رسائی نہ کرنا ،اس کا ایک اہم ترین سبب یہ ہی ہے کہ کثرت عمل کو زیادہ مدنظر رکھا گیا اور کیفیت عمل پر کم توجہ دی گئی ہے۔

وگرنہ قرآن کی  ایک آیت بھی ہدایت کے لیے کافی ہے ۔

ماخذ: رمضان اور قرآن


[1] سورہ بقر ہ : ۱۸۵ 

[2] الكافي (ط – الإسلامية) / ج‏2 / 630 / باب النوادر …..  ص : 627  :  أَبُو عَلِيٍّ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ رَبِيعٌ وَ رَبِيعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَانَ.

[3] وسائل الشيعة / ج‏6 / 217 / 27 – باب استحباب ختم القرآن في كل شهر مرة أو في كل سبعة أيام أو في خمسة أو في ثلاثة أو في ليلة مع ترتيله و سؤال الجنة و الاستعاذة من النار عند آيتيهما و حكم ختم القرآن في شهر رمضان …..  ص :  215     عَلِيُّ بْنُ مُوسَى بْنِ طَاوُسٍ فِي كِتَابِ الْإِقْبَالِ عَنْ وَهْبِ بْنِ حَفْصٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ الرَّجُلُ فِي كَمْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ- قَالَ فِي سِتٍّ فَصَاعِداً قُلْتُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- قَالَ فِي ثَلَاثٍ فَصَاعِداً.

[4] الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 618 ِعدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي الْبِلَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: قُلْتُ لَهُ إِنَّ أَبِي سَأَلَ جَدَّكَ عَنْ خَتْمِ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ فَقَالَ لَهُ جَدُّكَ كُلَّ لَيْلَةٍ فَقَالَ لَهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ لَهُ جَدُّكَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ لَهُ أَبِي نَعَمْ مَا اسْتَطَعْتُ فَكَانَ أَبِي يَخْتِمُهُ أَرْبَعِينَ خَتْمَةً فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثُمَّ خَتَمْتُهُ بَعْدَ أَبِي فَرُبَّمَا زِدْتُ وَ رُبَّمَا نَقَصْتُ عَلَى قَدْرِ فَرَاغِي وَ شُغُلِي وَ نَشَاطِي وَ كَسَلِي فَإِذَا كَانَ فِي يَوْمِ الْفِطْرِ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ ص خَتْمَةً وَ لِعَلِيٍّ ع أُخْرَى وَ لِفَاطِمَةَ ع أُخْرَى ثُمَّ لِلْأَئِمَّةِ ع حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَيْكَ فَصَيَّرْتُ لَكَ وَاحِدَةً مُنْذُ صِرْتُ فِي هَذَا الْحَالِ فَأَيُّ شَيْ‏ءٍ لِي بِذَلِكَ قَالَ لَكَ بِذَلِكَ أَنْ تَكُونَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَلِي بِذَلِكَ قَالَ نَعَمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. «1»

[5] الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 618 ُمحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ: سَأَلَ أَبُو بَصِيرٍ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا حَاضِرٌ فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي لَيْلَةٍ فَقَالَ لَا فَقَالَ فِي لَيْلَتَيْنِ فَقَالَ لَا حَتَّى بَلَغَ سِتَّ لَيَالٍ فَأَشَارَ بِيَدِهِ فَقَالَ هَا….

[6]  ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ص كَانَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ وَ أَقَلَّ إِنَّ الْقُرْآنَ لَا يُقْرَأُ هَذْرَمَةً وَ لَكِنْ يُرَتَّلُ تَرْتِيلًا إِذَا مَرَرْتَ بِآيَةٍ فِيهَا ذِكْرُ النَّارِ وَقَفْتَ عِنْدَهَا وَ تَعَوَّذْتَ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ

[7] سوره مزمل آیه 4

[8] الكافي (ط – الإسلامية) / ج‏2 / 614 / باب ترتيل القرآن بالصوت الحسن …..  ص : 614  :   عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ وَاصِلِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا  قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ص بَيِّنْهُ تِبْيَاناً وَ لَا تَهُذَّهُ هَذَّ الشِّعْرِ وَ لَا تَنْثُرْهُ نَثْرَ الرَّمْلِ وَ لَكِنْ أَفْزِعُوا قُلُوبَكُمُ الْقَاسِيَةَ وَ لَا يَكُنْ هَمُّ أَحَدِكُمْ آخِرَ السُّورَةِ.

[9] شرح الكافي-الأصول و الروضة (للمولى صالح المازندراني)، ج‏11، ص: ۳۷

[10] خلاصہ تلاوت کرتے ہوئے  درمیانی راستہ اختیار کیا جائے نہ ہی بہت تیزی سے پڑھا جائے اور نہ ہی حد سے زیادہ  آہستہ رفتار سے

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

ثانی زہراء علیہا السلام،عقل کے کمال کی بہترین مثال

حضرت زینب علیہا السلام کا یہ کلام توحید کے اعلی ترین مراتب اور بندگی اور عبودیت میں قرب خدا  پر دلالت کرتاہے۔معشوق کی نسبت عاشق کے انتہائی ادب  پر دلیل ہے۔