سر ورق / مقالہ نگار / محمد علی غیوری / آداب تلاوت قرآن (ماہ رمضان اور قرآن 5)

آداب تلاوت قرآن (ماہ رمضان اور قرآن 5)

اس مقام پرتلاوت قرآن کے آداب کی  ایک مختصر فہرست کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ صحیح طریقے سے اپنے اور معاشرے کی نورانیت کا اہتمام کیا جاسکے۔
  1. ۱ستعاذہ:

جیسے کہ خود قرآن کریم نے اس جانب توجہ دلائی ہے

فَإِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ‏ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [1]

ترجمہ: پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو راندہ درگاہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔

یعنی قرآن پڑھتے وقت خداوندمتعال سے  پناہ طلب کرے کہ وہ شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھے تاکہ صحیح معنی میں ہدایت  سے بہرہ مند ہوسکے۔

  • طہارت:

جیسے کہ قرآن کریم میں فرمان ہے کہ:

لا يَمَسُّهُ إِلاَّ الْمُطَهَّرُون‏[2]

ترجمہ: اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے۔

قرآن سے ہدایت پانے کے لیےظاہری اور باطنی دونوں طہارت کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی ایک طرف جہاں انسان کا جسم و لباس پاک ہو اور وضو کے ساتھ ہو، وہاں دل بھی اخلاقی برائیوں مثلا حسد اور کینہ وغیرہ سے محفوظ ہو اور توجہ سے  خضوع اور خشوع کے ساتھ قرآن کی تلاوت کی جائے۔

  • ترتیل:

جیسے کہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :

وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتيلاً [3]

اس ادب کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے ہوتا ہے کہ یہ دیگر اہم آداب تلاوت قرآن  کے لیے مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہےچونکہ اگر انسان ٹھہرٹھہر کر قرآن  نہیں پڑھے گا اور بہت جلدی  جلدی تلاوت کریگا تو غور و فکر اور تدبر و تفکر نہیں کرپائے گا جو عمل میں بہتری کے لیے از حد ضروری ہے۔

اس ادب کے سلسلےمیں سیر حاصل گفتگو گذشتہ مباحث میں بیان ہوچکی ہیں۔

  • تدبر و تفکر:

جیسے کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے:

كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ مُبارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آياتِهِ وَ لِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الْأَلْباب‏[4]

ترجمہ: یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور صاحبانِ عقل نصیحت حاصل کریں

امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالبؑ نے واقعی فقیہ(دین  کا ماہر۔دین میں سمجھ بوجھ رکھنے والے) کی   علامتوں کو  بیان کرتے ہوئے  جہاں ان تین نشانیوں کا تذکرہ فرمایا:

۱۔ جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے۔

۲۔ جو لوگوں کو اللہ کے عذاب سے محفوظ  قرار نہ دے۔(یعنی تم پر کوئی عذاب نہیں آئیگا۔)

۳۔  جو لوگوں کو خدا کی معصیت کی اجازت نہ دے۔

وہاں چوتھی اہم ترین علامت یہ بیان کی کہ

۴۔ وہ  قرآن کو (معاشرے میں)  تنہا نہیں چھوڑتا ہے  کہ اس سے بے رغبتی اختیار کی جائے اور دوسری چیزوں کی طرف توجہ کی جائے۔

اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب وہ لوگوں کو اس میں غور و فکر کی دعوت دے ۔ قرآن کے معارف اور تعلیمات اسقدر بلند ہیں اور اس میں اتنی کشش  اور جاذبہ ہے کہ ہر انسان سلیم اسکے سامنے سر تسلیم خم کردیتا ہے۔

لہذا امام ؑ ان علامتوں کا ذکر کرنے کے بعد اسی  مطلب کی جانب اشارہ  فرماتے ہیں کہ

جس علم میں سمجھ بوجھ نہ ہو،  جس قرائت میں تدبر نہ ہوا ور جس عبادت میں تفکر نہ ہو ،وہ بے فائدہ ہے۔ [5]

  • قرآن فہمی کے دیگر آداب کی رعایت کرے:

جس معاشرے میں افراط و تفریط پائی جائے ، معمولا یہ اس معاشرے کی جہالت کی علامت ہے۔  امیرالمومنین حضرت علی @کتاب شریف نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

 وَ قَالَ ع لَا [يُرَى الْجَاهِلُ‏] تَرَى الْجَاهِلَ إِلَّا مُفْرِطاً أَوْ مُفَرِّطاً[6]

 ترجمہ: تم جاہل کو نہیں دیکھو گے مگر یہ کہ افراط یا تفریط کی حالت میں تلاوت قرآن کے سلسلے میں بھی یہ کج روی نظر آتی ہے۔ یا ایسے لوگ ملیں گے جو صرف عربی عبارت پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں اور بالکل ترجمہ پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ یا پھر ایسے لوگ ہونگے جو تھوڑی سی عربی زبان سے واقفیت پاکر قرآنی آیات سے فتوی دینا شروع کردیتے ہیں۔ دونوں ہی رویے غلط ہیں، درمیانی راستہ اور حداعتدال یہ ہے کہ صرف عربی قواعد کی آشنائی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دیگر شرائط کی بھی رعایت کی جائے۔

ماخذ: رمضان اور قرآن


[1] سوره نحل آیه 98

[2] سوره واقعه آیه 79

[3] سوره مزمل آیه 4

[4] سوره ص آیه 29

[5] الكافي (ط – الإسلامية) / ج‏1 / 36 / باب صفة العلماء …..  ص : 36

3- عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْقَمَّاطِ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع أَ لَا أُخْبِرُكُمْ بِالْفَقِيهِ حَقِّ الْفَقِيهِ مَنْ لَمْ يُقَنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ وَ لَمْ يُؤْمِنْهُمْ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَ لَمْ يُرَخِّصْ لَهُمْ فِي مَعَاصِي اللَّهِ وَ لَمْ يَتْرُكِ الْقُرْآنَ رَغْبَةً عَنْهُ إِلَى غَيْرِهِ أَلَا لَا خَيْرَ فِي عِلْمٍ لَيْسَ فِيهِ تَفَهُّمٌ أَلَا لَا خَيْرَ فِي قِرَاءَةٍ لَيْسَ فِيهَا تَدَبُّرٌ أَلَا لَا خَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لَيْسَ فِيهَا تَفَكُّرٌ

[6] نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص: ۴۷۹

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

ثانی زہراء علیہا السلام،عقل کے کمال کی بہترین مثال

حضرت زینب علیہا السلام کا یہ کلام توحید کے اعلی ترین مراتب اور بندگی اور عبودیت میں قرب خدا  پر دلالت کرتاہے۔معشوق کی نسبت عاشق کے انتہائی ادب  پر دلیل ہے۔