سر ورق / رمضان المبارک / قرآن فہمی کے دیگر آداب(ماہ رمضان اور قرآن 6)

قرآن فہمی کے دیگر آداب(ماہ رمضان اور قرآن 6)

گزشتہ سے پیوستہ:

صرف عربی قواعد کی آشنائی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دیگر شرائط کی بھی رعایت کی جائے۔

ان میں سے بعض  امور  کا ذکر کیا جارہا ہے۔

۱۔          عربی زبان کے قواعد سے مکمل آشنائی

قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے لہذا زبان کو سمجھنے  سے متعلقہ علوم سے آشنائی ضروری ہے ۔ جس میں علم صرف و علم نحو و علم معانی و بیان و بدیع اور علم لغت کی دخالت بہت زیادہ ہے۔

۲۔   رسو ل  اور آل رسولؑ کے کلام سے آشنائی

جیسے کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے:

وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ 

ترجمہ: اور (اے رسول) آپ پر ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں.

چونکہ بہرحال خداوندمتعال نے اس کتاب کو ان ہستوں کے ذریعے بنی نوع انسان تک پہنچایا ہے جو پیکر عصمت ہیں اور جن کی فکر و گفتار و اعمال ہر قسم کی غلطیوں اور نقائص سے پاک ہیں ۔ لہذا دین کی تعلیمات کو کامل سمجھنے اور اسے لوگو ں تک صحیح طریقے سے پہنچانے  کے زیادہ سزاوار ہیں۔

اور دوسری جانب خود قرآن کی ماہیت اور بناوٹ ایسی ہے کہ اس میں معمولا  کلیات کا ذکر ہے اور جزئیات کے لیے خداوندمتعال نے اپنے نمائندے قرار دیے ہیں جو انہیں لوگوں تک لئے بیان کرتے ہیں اور اس کے بغیر ہدایت نامکمل ہے ۔

ابوبصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام  صادقؑ سے  آیہ’’ أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ‘‘کے بارے میں سوال کیا: امامؑ نے فرمایا یہ آیت حضرت علی ؑاور امام حسن و حسینؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

میں نے پھر امام ؑسے پوچھا  کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیونکر علی ؑاور آپ کے اہل بیت ؑکےنام  قرآن میں نہیں آئے ؟

امام ؑنے فرمایا: ان سے کہو:

نمازکا حکم اللہ کے رسو ل پر نازل ہوا (یعنی قرآن میں آیا ہے) لیکن خداوندمتعال نے یہ ذکر نہیں فرمایا کہ تین رکعت پڑھنی ہے یا چار ، یہاں تک کہ  رسول اللہ ﷺنے  اس بات کی وضاحت فرمائی۔

(اسی  طرح) زکات کا حکم آیا لیکن پروردگار نے  یہ واضح نہیں فرمایا کہ ہر چالیس درہم پر ایک درہم زکات ہے یہاں تک کہ اللہ کے رسولﷺنے اسے  بیان فرمایا

(اسی طرح ) حج کا حکم آیا لیکن  یہ نہیں فرمایا کہ سات چکر لگانے ہیں یہاں تک کہ رسولﷺنے اس کا ذکر فرمایا

اسی طرح آیہ اولو الامر نازل ہوئی (کہ اللہ،اسکے رسول اور اولو الامر کی اطاعت کرو) جو کہ علی و حسن و حسینؑ کے بارے میں تھی ،پھر رسول اللہؐ نے علیؑ کے بارے میں فرمایا:  جسکا میں ہوں مولا اس کے ہیں علی مولا ۔

آخر کلام میں بہرحال یہ ذکر کردیناضروری ہے کہ جس نشیب و فراز سے سلسلہ احادیث گذرا ہے اور جو کوشش کی گئی ہے حق کو چھپانے کے سلسلے میں (صحیح احادیث کا مٹایا جانا، جھوٹی احادیث اور جھوٹے راویوں کا بڑھایا جانا….)

کہ جسکا بخوبی مشاہدہ مسلمانوں میں پائے جانے والے فرقوں کے عقائد اور اعمال کے مختلف ہونے سے لگایا جاسکتا ہے ۔

اسکے باوجود بھی قرآن کے نور اور بیان ہونے میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ہے اورجس حد تک قرآن نے کسی مسئلہ کو پیش کیا ہے اس حد تک قرآن واضح اور روشن  ہے  ۔

اور ایسا قطعا نہیں ہے کہ احادیث کے بغیر قرآن ایک معمہ اورعدم قابل فہم کلام  ہو۔

وہ احادیث  جو صحیح اور باطل حدیثوں کے لئے قرآن کو معیار قرار دیتی ہیں ، وہ اس بات پر دلیل ہیں کہ قرآن   فی نفسہ حجت ہے اور قابل فہم و ادراک ہے۔

جی ہاں! جہاں تک ان جزئیات تک رسائی کا تعلق ہے جو روایات میں بیان کی گئی ہیں تو اس کے لیے اخلاص اور  کوشش کی ضرورت ہے ، جو سچے دل سے خدا سے مانگے اور اپنی علمی بھوک اور پیاس کا اظہار کرے  ، خدا اسے سچوں سے ملحق کردیتا ہے۔

تاریخ ایسے  سینکڑوں واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ کس طرح ہدایت کے طلبگار کو خدا نے در اہل بیتؑ تک پہنچایا ہے۔

۳۔ مفسرین  قرآن سے رجوع:

ان علماء سے جنہوں نے تفسیر قرآن کے سلسلے میں عرق جبیں بہایا ہے یا ان کی کتابوں سے استفادہ بھی قرآن کے سمجھنے میں بےحد مفیدہے۔

اور ذہن میں آنے والے بہت سے سوالات  کی پیاس بجھانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔

6.  قرآن پر عمل کرنے کی نیت کو مدنظر رکھے:

تلاوت قرآن کا ایک اور اہم ادب یہ ہے کہ انسان کو جب  خداوندمتعال یہ توفیق دے  کہ وہ ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھ پائے اور اسمیں غور و فکر کرپائے تو اب اس کے معارف اور مطالب کو اپنی زندگی کا حصہ قرار دیتا چلاجائے تاکہ قرآن کی نورانیت سے صحیح معنی میں بہرہ مند ہوسکے۔

رسول اللہ ﷺاس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :   

وَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَ لَمْ يَعْمَلْ بِهِ حَشَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى فَيَقُولُ يَا رَبِّي لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمى‏ وَ قَدْ كُنْتُ بَصِيراً قالَ كَذلِكَ أَتَتْكَ آياتُنا فَنَسِيتَها وَ كَذلِكَ الْيَوْمَ تُنْسى‏ «2» وَ يُؤْمَرُ بِهِ إِلَى النَّار

ترجمہ: جو شخص قرآن پڑھے لیکن اسپر (جان بوجھ کر) عمل نہ کرے ، خداوند متعال اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریگا ۔ وہ فریاد بلند کریگا: خدایا !مجھے کیونکر اندھا محشور کیا ہے جبکہ میں دنیا میں دیکھ پارہا تھا ، جواب  ایزدی آئیگا اسی طرح تم تک ہماری نشانیاں آئیں تھیں  تو تم انہیں بھلا بیٹھے اور اسی طرح آج تمہیں بھلا دیا جائیگا اور اسے جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دے دیا جائیگا۔

7.  تلاوت قرآن کو قربۃ الی اللہ بجالائے

خداوندمتعال کی خوشنودی کی خاطر قرآن پڑھے ، ریاکاری اور دکھاوے کی خاطر نہ پڑھے۔

اس سلسلے میں رسول اسلام کا فرمان ہے کہ:

وَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ يُرِيدُ بِهِ رِيَاءً وَ سُمْعَةً وَ الْتِمَاسَ الدُّنْيَا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ وَجْهُهُ عَظْمٌ لَيْسَ عَلَيْهِ لَحْم‏

ترجمہ: جو شخص  ریاکاری اور دکھاوے کی خاطر قرآن کی تلاوت کریگا اوراس کام سے دنیا کو چاہے گا ، وہ خداوندمتعال سے اس عالم میں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ ہڈی کا ڈھانچہ ہوگا اور اس پر کسی قسم کا   گوشت نہیں ہوگا۔

اس بحث کا خاتمہ اس  بات پر کرتے ہیں کہ گرچہ تلاوت قرآن کے دیگر بہت سے ظاہری اور باطنی آداب کا ملحوظ خاطر رکھنا  دل کے منور کرنے کے لئے مفید ہے  (مثلا مسواک، اچھی آواز میں تلاوت کرنا، قرآن پر نگاہ رکھنا ، حزن و اندوہ کے ساتھ تلاوت کا بجالانا) لیکن اہمیت کی حامل غرض   یہ ہے کہ  انسان کی رغبت قرآن کریم کی نسبت سے بڑھ جائے  ۔ جب ایک مرتبہ کلام خدا کی  پیاس کو انسان اپنے وجود میں احساس کرنے لگے گا تو پھر قرب خدا کی منزلوں کو بہت تیزی سے طے کرپائے گا۔

امام زین العابدین ؑاس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :

اگر مشرق اور مغرب کے مابین موجود ہر چیز کو موت آجائے ،  (پھر بھی) میں احساس وحشت (اور تنہائی ) نہیں کرونگا جبکہ قرآن میرے ساتھ ہو۔جب امام ؑ آیہ ’’مالک یوم الدین‘‘ کی تلاوت فرماتے تو اسقدر اس کی تکرار فرماتے تھے کہ  (ڈر ہوتا) کہیں موت نہ واقع ہوجائے۔

ماخذ: رمضان اور قرآن

شاید آپ یہ بھی پڑھنا چاہیں

ثانی زہراء علیہا السلام،عقل کے کمال کی بہترین مثال

حضرت زینب علیہا السلام کا یہ کلام توحید کے اعلی ترین مراتب اور بندگی اور عبودیت میں قرب خدا  پر دلالت کرتاہے۔معشوق کی نسبت عاشق کے انتہائی ادب  پر دلیل ہے۔