پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی افغانستان کے معاملات میں مشغول رہتا ہے کیونکہ ایک طرف دہشتگرد تنظیموں کا وجود اور دوسری جانب پاکستان مخالف ملکوں کی جانب سے افغانستان میں پاکستانی مفادات میں رکاوٹ ایجاد کرنا ہے۔جس کیو جہ سے پاکستان افغان معاملات سے کسی بھی طور لاتعلق نہیں رہ سکتا۔
حال ہی میں جہاں افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد طالبان نے سراٹھایا ہے وہاں پاکستان میں بھی ان کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔جس کی مثال یہ ہے کہ پاکستان میں طالبان فکر کے حامل علماء اور دیگر تنظیمی لیڈر طالبان کے لیے حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور انکے لیے چندہ کی ا پیلیں بھی کی جارہی ہے مزید یہ کہ گھر گھر جاکر چندہ وصول کیا جارہا ہے۔
چند شب پہلے پشاور میں واقع مدرسہ احیاء العلوم کے مفتی کے فرزند کی لاش افغانستان سے پاکستان لائی گئی جو کہ افغان طالبان کے ہمرکاب لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔پشاور میں طالبان کے جھنڈوں تلے موٹر سائیکل سواروں پر مشتمل ریلی نکالی گئی اور بڑی آب وتاب کے ساتھ انہیں سپرد خاک کیا گیا۔
دوسری جانب کوئٹہ میں بھی رات کے وقت طالبان کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں اور پولیس اور ایجنسیاں سب کے ناک تلے یہ سب ہوتا رہا کسی میں یہ جرات نہ ہوئی کہ انہیں روک سکے یا انکے خلاف کوئی مقدمہ درج کروا سکے۔
قلم نویس بھی چند ماہ قبل کوئٹہ جاتے ہوئے ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے رکا تو ایک جوان خطیب شعلہ بیاں نے طالبان کی حمایت میں تقریر کی اور عوام سے بھرپور حمایت کی اپیل کی۔
صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کے ایک رکن پارلیمنٹ محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں طالبان کی سرگرمیاں کھلے عام جاری ہیں اور ریاستی مرضی کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ طالبان کے لیے عطیات اور چندہ جمع کرنے کی رپورٹوں کو حکومتی اہلکاروں نے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ایسی رپورٹوں کو لغو اور من گھڑت کہا ہے۔
یہ اہم ہے کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان خلافِ قانون قرار دی جا چکی ہے لیکن مبصرین کے مطابق ان کی جانب سے افغان طالبان کو دی جانے والی حمایت سے انہیں بعض حلقوں کی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔
ویسے بھی بقول سینئر صحافی مرحوم عباس اطہر جس چیز کا حکومت انکار کرناشروع کردے وہ سمجھو کہ کہیں نہ کہیں ہورہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب کھلے عام پاکستان میں طالبان کی حمایت جاری ہے اور انکے لیے چندہ اکٹھا کیا جارہا ہے اور لوگ بھی واضح ہیں جو یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں تو پاکستانی ریاست کیا کررہی ہے؟
کیا پاکستانی ریاست اتنی کمزور ہے کہ چند افراد کے سامنے قیام نہیں کرسکتی تو کل جب طالبان افغانستان میں غالب آگئے تو کیا ہوگا؟
نوٹ(ادارے کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں)